کیا حکومت کے پاس واقع الہ دین کا چراغ نہیں؟


کالم نگار اور دوسرے مبصرین و دانشور حقائق بیان کر کر کے عوام کو اور ارباب اختیار کو جھنجھوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں ، مگر کسی چیخ و پکار کا اثر پاکستانی عوام کے قسمت پر نہیں ہو رہا اور وہ ڈوبتی ہی جا رہی ہے، ملاحظہ فرمائیے عبداللہ طارق سہیل کے کام سےاقتباس، جو 7 ستمبر کو شائع ہوا۔
پاکستان کی حکومت عوام کے مسائل حل نہیں کرتیں، ان میں اضافہ کرتی ہیں اور شکایت کی جائے تو عذر کرتی ہیں کہ ہمیں‌الہ دین کا چراغ نہیں‌ملا۔
مشرف کو پورے آٹھ سال تک یہ چراغ نہیں ملا، اب نئے وزیر اعظم نے بھی ڈیڑھ سالہ عرصہ گزارنے کے بعد اعلان کر دیا کہ ان کے پاس الہ دین کا چراغ نہیں ہے اس لیے وہ عوام کے مسائل حل نہیں کر سکتے۔
کراچی میں گورنر سندھ کے افطار ڈنر میں خطاب کرتے ہوے انہوں نے یہ انکشاف کیا۔ان کے میزبان عشرت العباد تھے جو زمانہ قدیم یعنی زمانہ قبل از 18 فروری سے گورنر چلے آرہے ہیں، ان سے پوچھ لیتے، شاید انہیں الہ دین کا چراغ مل گیا ہو، جتنے عرصے سے وہ گورنر ہیں چراغ ڈھونڈنے کے لیے کافی ہوتا ہے۔ الہ دین کا نہ سہی، مشرف دین کا ہی سہی، کوئی نہ کوئی چراغ تو ان کے پاس ہو گا، مشرف دور عبوری دور اور پھر جمہوری دور، تینوں میں‌وہی اکیلے ہیں جو اپنی جگہ سے نہیں ہلے۔

ویسے وزیر اعظم کے پاس الہ دین کا چراغ تو ہے، یہ الگ بات ہے کہ اس کا مصرف کچھ اور ہو، الہ دین کا چراغ نہ ہوتا تو وہ کارنامے کیسے ممکن تھے جو پاکستان کی کسی پچھلی حکومت ، بلکہ دنیا کی کسی حکومت کے حصے میں‌نہیں آئے۔ لیکن موجودہ حکومت نے کر دکھائے

الہ دین کا چراغ گھمایا۔ عالمی منڈی میں سستا تیل یہاں مہنگا ترین ہو گیا
الہ دین کا چراغ گھمایا۔ لوڈ شیڈنگ کا سورج سوا نیزے پر پہنچ گیا
الہ دین کا چراغ گھمایا۔ رینٹل پاور ہاوسز میں اڑھائی کھرب کا منافع کما لیا
الہ دین کا چراغ گھمایا۔ ، مشرف کو زیرو سے ہیرو بنا دیا
الہ دین کا چراغ گھمایا۔ جو چاہا کر دکھایا
یہ الہ دین کا چراغ بڑے کمال کا ہے، ایک اور کمال ملاحظہ ہو
مشرف آیا تو پاکستان 32 ارب ڈالر کا مقروض تھا، جب وہ گیا تو 38 ارب ڈالر کا مقروض تھا گویا فی سال پون ارب ڈالر قرضہ بڑھا دیا، لیکن جیسا کہ حکومت کے حامی کہتے ہیں، ہماری سرکار سب پر بھاری
چنانچہ اس سرکار نے ڈیڑھ برس میں غیر ملکی قرضوں کی مالیت 38 ارب سے بڑھا کر 50 ارب ڈالر کر دی، گویا ڈیڑھ سال میں 12 ارب ڈالر کا اضافہ، مزید گویا ایک سال میں 8 ارب ڈالر کا اضافہ
بھاری سرکار اتنا بھاری کارنامہ ، الہ دین کا چراغ نہ ہوتا تو کیسے کر سکتی تھی
چنانچہ ثابت ہوا کہ حکومت کے پاس الہ دین کا چراغ ہے، لیکن اس چراغ کی ایک ہی کل ہے جو بھاری سرکار کے لیے گھومتی ہے، عوام کے فائدے کا معاملہ ہو تو یہ چراغ بے حس و حرکت ہو جاتا ہے، اس لیے وزیر اعظم صاحب یہ مت فرمائیے کہ آپ کے پاس الہ دین کا چراغ نہیں‌ہے، یہ فرمائیے کہ چراغ تو ہے لیکن۔۔۔۔۔۔

About Yasir Imran

Yasir Imran is a Pakistani living in Saudi Arabia. He writes because he want to express his thoughts. It is not necessary you agree what he says, You may express your thoughts in your comments. Once reviewed and approved your comments will appear in the discussion.
This entry was posted in Features, Urdu and tagged , , , , , , , , , , , , , , , , , . Bookmark the permalink.

8 Responses to کیا حکومت کے پاس واقع الہ دین کا چراغ نہیں؟

  1. sadia saher says:

    سلام یاسر

    حکومت کے پاس الہ دین کا چراغ ھے تبھی تو بنا رشوت لیے ان کے محل بنتے جا رھے ھیں وہ خود نہیں بنواتے ان کے پاس صرف آبائ گھر ھوتے ھیں محل الہ دین کا جن بنوا دیتا ھوگا

  2. Yasir Imran says:

    وعلیکم سلام سعدیہ

    ٹھیک کہہ رہی ہیں آپ، کرپشن کا ایسا بازار گرم ہے جس کی مثال نہیں ملتی، جو جتنی کرپشن کرتا ہے وہ اتنا ہی باعزت ہے، اس حکومتی نظام کو ختم کرنے کے لیے عوام نے ۱۸ فروری کے انتخابات میں اپنی سے کوشش کی لیکن افسوس کہ کچھ بھی نہ بدلا، بدلنے کی بجاءے بگڑ گیا

  3. نہائت عمدہ تحریر ہے۔ آپکی حساس طبیعت اور جذبات کی ترجمانی کرتی ہے۔البتہ یہ چراغ اگر ان کے پاس نہیں تو اسکا مطلب یوں ہوا۔ کہ یہ ناہل لوگ ہیں۔ جو تسلیم کرتے ہیں کہ اُن کے بس میں کچھ نہیں۔ ایسی صورتحال میں انھیں اپنے مناصب سے ہاتھ اٹھا لینا چاھئیے کہ ناہل لوگوں کو حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں ہوتا، انہیں فورا استعفٰی دے دینا چاہئیے تانکہ کوئی قابل اور حاملِ چراغِ الہٰہ دین کو یہ بھاری پتھر اٹھا سکے۔

  4. یہ الہ دین کے چراغ کے جن ہیں جو اپنے آقا کی حکم بجاآوری میں ایک پل کی تاخیر نہیں کرتے۔

  5. ٹھیک کہا آپ نے بھائی!

    یہ حکومت سب کچھ کر سکتی ہے اگر چاہے اور بات ساری نیت ہی کی ہے۔

  6. Yasir Imran says:

    جاوید صاحب
    بہت شکریہ، عبداللہ طارق نے واقعی بہت اچھا لکھا
    سیاست سے میرا تو اعتبار اٹھ ہی چکا ہے، مگر ووٹ دینا بھی مجبوری ہے
    کیوں کہ 18فروری کے انتخابات کے بعد جو امیدیں تھیں وہ حکمرانوں نے بے دردی سے توڑ دیں، اب اگر یہ چلے بھی جاییں تو ایسے ہی کویی اور آ جاییں گے۔

    میرا پاکستان
    شکریہ تبصرہ کرنے کے لیے

    محمد احمد
    آپکا بھی بہت شکریہ تبصرہ کے لیے

  7. Kami says:

    حکمرانوں کو سی ون تھرٹی میں لوڈ کرو اور کوہ قاف روانہ کر دو چراغ ڈھونڈنے کے لیے

  8. taaoo75 says:

    جن ڈھونڈنے کے لئے پہلے نیا چراغ ڈھونڈنا ہوگا۔ یار لوگ اسی چراغ کو رگڑے پہ رگڑا دئیے جاتے ہیں اسی آس پر کہ اس میں سے جن اب نکلا کہ اب جب کہ چراغ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہوتا ہے “میرے پاس جن نہیں ہے”۔

Leave a comment