پرائیویٹ اداروں میں ہائیر ایجوکیشن – ہفتہ بلاگستان ۲


ارے دوسر دن تعلیم کے لیے ہے، لیکن پہلے دن بھی تو تعلیم کے متعلق لکھا، خیر وہاں اگر پرائمری سکول کا لکھا تو یہاں کالج میں تعلیم کے متعلق ایک واقعہ سنادیتا ہوں،انٹرمیڈیٹ میں والد صاحب کی بیماری کی وجہ سے میں تعلیم اور امتحانات پر توجہ نہ دے سکا پھر بھی درمیانے درجے کے نمبر لینے میں کامیاب ہو گیا، میرا ارادہ تو ٹیکنکل کالج رسول سے درافٹسمین ڈپلومہ یا تین سال کا سول انجینئر کا ڈپلومہ کرنے کا تھا لیکن بڑے بھائی کی تجویز پر کمپیوٹر سائنس میں ڈگری حاصل کرنے کے لیے لاہور چلا گیا، میرے شہر کے کچھ لڑکے لاہور میں تعلیم حاصل کر رہے تھے، جن میں سے کچھ آئی ایل ایم نامی انسٹیٹیوٹ میں ، کچھ منہاج القرآن یونیورسٹی میں پڑھ رہے تھے، خیر معلومات حاصل کرنے کے بعد منہاج القرآن مناسب لگا، اس وقت بی سی ایس کی تین سال کی فیس ڈھائی لاکھ تھی، کچھ ہوسٹل یا پرائیویٹ فلیٹ کے اخراجات، وہ بھی کافی زیادہ تھے، والد صاحب اس بات کے لیے راضی نہ ہوے کیوں کہ وہ خود بیمار تھے لیکن میرے بڑے بھائی جو کہ سعودی عرب میں ملازمت کرتے تھے ، انہوں نے اصرار کر کے والد صاحب کو منا لیا۔



میرے خاندان میں اپنے شہر سے باہر جا کر تعلیم حاصل کرنے والا میں پہلا لڑکا تھا، اس لیے بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، کچھ عرصہ بعد ادراک ہوا کہ اگر کوئی مجھ سے پہلے یونیورسٹی ایجوکیشن حاصل کر چکا ہوتا تو میری کافی رہنمائی ہو جاتی، منہاج کا ماحول، کافی اچھا تھا، مذہبی بھی ، تعلیمی بھی، کبھی کبھار طاہرالقادری صاحب آ کرلیکچر بھی دیتے، پہلا سمسٹر ختم ہوا، رمضان میں امتحانات دیے اور چھٹیاں ہو گئیں، تو منہاج والوں نے بصد اصرار تمام طلبا کو اعتکاف میں بیٹھنے کا حکم دیا، زیادہ تر طلبا نے انکار کر دیا اور چھٹیوں میں گھر چلے گئے، میں بھی انہی میں سے ایک تھا، عید کی چھٹیاں گزارنے کے بعد جب کالج پہنچے تو دیکھا کالج کے گیٹ کو تالہ لگا ہوا ہے، ہاسٹل پہنچے تو وہ بھی مقفل تھا۔ معلوم کرنے پر پتا چلا کہ جو طلبا اعتکاف میں نہیں بیٹھے ان کو فارغ کر دیا گیا ہے، انہیں کالج اور ہاسٹل میں داخلے کی اجازت بھی نہیں، وہ اپنے ڈاکومنٹس لیں اور چلتے بنیں۔ اس وقت کالج کے ایم ڈی زبیر اختر صاحب منہاج کی انتظامیہ سے مذاکرات کر رہے تھے کہ لڑکوں کو معاف کر دیا جائے، مگر انتظامیہ تیار نہیں تھی، زبیر اختر ایک چالاک آدمی تھا، اس نے سوچا کہ لاہور میں پرائیویٹ کالجز طلبا کو ترس رہے ہیں، تو اگر ان خارج شدہ طلبا کو میں کسی کو بیچ دوں تو مجھے کافی مال مل سکتا ہے، پھر اس نے اس پلان کو تبدیل کیا اور اپنا علیحدہ انسٹیٹیوٹ بنانے کا سوچا، اس نے خارج شدہ طلبا کو وہ سبز باغ دکھائے کے تمام طلبا اس بات پر متفق ہو گئے، یوں منہاج والوں سے علیحدہ ایک انسٹیٹیوٹ قائم ہو گیا، جس میں شعبہ کمپوٹر کے تمام، شعبہ کامرس کے اس فیصد کے قریب اور ایم بی اے و ایم سی ایس کے کافی طلبا شامل تھے، یوں ایک پرائیوٹ انسٹیٹیوٹ ایسا بنا جس میں بنا کسی اشتہار اور بنا محنت کے طلبا کی بہت بڑی تعداد اکٹھی ہو گئی۔ زبیر اختر نے سب سے دھوکہ کرتے ہوے طلبا کو ایک اجاڑ نما کوٹھی میں منتقل کر دیا اور باہر ایک نئے انسٹیٹیوٹ کا بورڈ بھی لگا دیا، طلبا نے احتجاج کیا تو اس نے کہا کہ یہ شروعات ہے اور میں بہت بہتر کرلوں گا سب کچھ ، لیکن آہستہ آہستہ، طلبا اس وقت دو سمسٹرز کی فیس منہاج کو دے چکے تھے ، جو زبیر اختر نے ان سے بٹور لی، وہ طلبا کی فیس بھی واپس کرنے کو تیار نہ تھا ، یوں طلبا پھنس گئے، خیر جوں جوں وقت گزرا اکثر ذہیں طلبا نے بھانپ لیا کہ زبیر اختر نے کچھ نہیں کرنا، کیوں کہ نہ وہ اچھے لیکچررز لا رہا تھا، نہ لیبارٹری میں کوئی اچھا کمپوٹر موجود تھا، اور تعلیمی حالت منہاج سے آدھے درجے کی بھی نہیں تھی، اس وقت بہت سے طلبا فیس کو بھول کر منہاج واپس چلے گئے اور انہوں نے منہاج انتظامیہ سے معافی مانگ لی۔
کچھ طلبا آس لگا کے رکے رہے کہ شاید صورت حال اچھی ہو جائے، اس وقت ہم تمام طلبا نے زبیر اختر کو خوب برا بھلا بھی کہا اور اکثر نے ڈاکٹر عطا الرحمن کو خطوط بھی لکھے، کہ پرائیوت اداروں میں تعلیم کے معیار کا جائزہ لیا جائے، یوں تین سال کا عرصہ مکمل ہو گیا اور طلبا نے ڈگریاں تو ہاتھوں میں لے لیں مگر نہ تو وہ کوئی پروجیکٹ بنانے کے قابل تھے نہ انہیں کمپیوٹر پروگرامنگ آتی تھی۔ اس کے علاوہ ہمیں یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ پرائیوٹ یونیورسٹی جو کہ چارٹرڈ نہیں ہوتی، اسکی ڈگری نہ صرف پاکستان میں بلکہ دوسرے ممالک میں بھی قبول نہیں ہوتی اور اس کی اوقات ایک کاغذ سے زیادہ نہیں، چونکہ ہم سب کا پہلی دفعہ کا تجربہ تھا اس لیے ہم اپنا وقت اور پیسہ برباد کر بیٹھے، کیا حکومت کو یہ چاہیے نہیں کہ جو پرائیویٹ ادارے ڈگری جاری کر رہے ہیں، یا تو انہیں روک دیا جائے ، یا پھر ان کی ڈگری کو چارٹرڈ ڈگری کا درجہ دیا جائے۔
میں اس نئے انسٹیٹیوٹ میں رکنے کے اپنے فیصلے کو آج غلط قراردیتا ہوں، کیوں کہ میں نے اتنا پیسہ بھی لگایا اور اچھی تعلیم بھی حاصل نہ کر سکا، خیر گرتے پڑتے کچھ چیزیں سیکھ لیں جن کی وجہ سے آج سعودی عرب میں نوکری کر رہا ہوں۔پاکستان میں اکثر پرائیوٹ اداروں میں تعلیم کا معیار ایسا ہی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت نہ صرف گورنمنٹ کالج اور یونیورسٹیز میں تعلیم کا معیار قائم کرے بلکہ پرائیویٹ اداروں کے لیے بھی کوئی طریقہ کار وضع کیا جائے۔

About Yasir Imran

Yasir Imran is a Pakistani living in Saudi Arabia. He writes because he want to express his thoughts. It is not necessary you agree what he says, You may express your thoughts in your comments. Once reviewed and approved your comments will appear in the discussion.
This entry was posted in Edu, Features, Urdu and tagged , , , , , , , , , , , , , , , , , . Bookmark the permalink.

16 Responses to پرائیویٹ اداروں میں ہائیر ایجوکیشن – ہفتہ بلاگستان ۲

  1. آپ میری بات کا برا نہیں منائیے گا بلکہ اس پر دوسرے رخ سے غور کیجیے گا۔۔
    جو طالب علم بیچلز کی سطح پر اس بات کا ادراک نہ رکھتا ہو کہ اس کا تعلیمی اداراہ درست طور رجسٹرڈ ہے یا نہیں اور آیا جو ڈگری اسے ملنے جارہی ہے وہ رائج تعلیمی میعار سے مماثلت رکھتی ہے یا نہیں۔۔ میری نظر میں اس طالب علم کو حق ہی نہیں کے اسے بیچلرز کی سطح‌ کی ڈگری دی جائے۔

    اس میں حکومت سے زیادہ ان طالب علموں کی بے وقوفی کا دخل ہے جو ایسے تعلیمی اداروں میں‌ داخلے لیتے ہیں جن کا آگے پیچھے کا کچھ پتہ نا ہو اگر لوگ اتنے مہنگے اداروں میں داخلے سے پہلے اس بات کا اطمینان کرلیں کہ ادراہ ڈگری دینے کا مجاز ہے یا نہیں‌ تو ان کی دکانداری چل ہی نا سکے یہ تو لوگوں کی اپنی بے وقوفی ہے جو ایسے اداروں کی کامیاب بناتی ہے اور بعد میں زندگی بھر پچھتاتی ہے اس میں حکومت کیا کرے؟۔

  2. Yasir Imran says:

    راشد صاحب، میں دیہات سے پڑھنے شہر گیا، مجھ سے غلطی ہوئی، میری رہنمائی کرنے والا کوئی نہ تھا، بہت ساری باتیں گریجویشن کے بیچ میں جا کر مجھے پتہ لگیں
    میرے کلاس میں ۵۰ افراد تھے، جن میں سے ۴۰ کے قریب دیہات سے تھے، وہ سب دھوکہ کھا گئے۔

    دیہات کی صورت حال بہت عجیب ہوتی ہے، یہ آپ نہیں جانتے، یہ پاکستان ہے، امریکہ نہیں ہے، یہاں انٹرنیٹ ابھی ابھی عام ہو رہا ہے، یہاں بجلی نہیں ہوتی اکثر گاؤں میں، ٹیلی فون موبائل کو ابھی آئے ۵ سال کے لگ بھگ ہوے ہیں۔

    یہ سب باتیں دھوکہ کھانے کا سبب بنتی ہیں، پھر بھی کچھ گاؤں کے لڑکے بہت چالاک اور تیز ترار بھی ہوتے ہیں، جو شہر کے لڑکوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیتے ہیں

    ایک اور بات، جب ہم طلبا نے کمپیوٹر کےمضامین میں داخلہ لیا ان دنوں کمپیوٹر سائنس نیا نیا آیا تھا پاکستان میں، تو ہمیں بہت سے افراد نے کہا کہ کمپیوٹر کی تعلیم میں ڈگری کی کوئی اہمیت نہیں، کام اور تجربے کی اہمیت ہے، لیکن ڈگری کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا، بعد میں بڑے شہر میں رہنے کے کچھ عرصہ بعد ہمیں یہ سب باتیں پتہ چلیں۔

    دیہات میں کم سکول کالجز، اکیڈمیز، پڑھے لکھے افراد کی کمی اور تعلیمی ماحول نہ ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو تعلیم کی اہمیت کا اندازہ بھی نہیں، اور ایک طالبعلم کی ذہنی بڑھوتری کے لیے جو اشیا درکار ہیں وہ گاؤں میں موجود نہیں ہوتیں میرے بھائی۔

    اور کہیں آپ کے کہنے کا یہ مطلب تو نہیں کہ سیدھے سادھے سادہ لوح افراد کو جدید تعلیم یا پڑھائی کا کوئی حق نہیں ؟
    یا پھر یہ مطلب تو نہیں کہ پرائیویٹ تعلیمی ادارواں کا دھوکہ کرنا جائز ہے ؟

  3. لگتا ہے راشد صاحب کی گزارش کے باوجود ان کے خدشے کے مطابق الٹا لے ہی لیا ہے۔ چلیں جو ہوا سو ہوا کیا آپ نے اس کے بعد دوبارہ صیحح ڈگری حاصل کرنے کی کوشش کی۔ ہم تو کہیں گے اب بھی آپ کے پاس وقت ہے۔ آپ سعودی میں رہ کر پاکستانی ڈگری کا امتحان دے سکتے ہیں۔
    چلیں اگر اب پڑھائی کو دل نہیں کرتا تو کم از کم اپنے بچوں کی ضرور رہنمائی کیجئے گا۔ آج حکیم صاحب کے بلاگ کی تحریر بھی آپ کی رہنمائی بھی آپ کی رہنمائی کر سکتی ہے۔ یہ نہ ہو کہ بعد میں آپ پھر کہیں کہ بیوی بچوں سے دور رہ کر وقت ضائع کیا کیونکہ آپ پینڈو تھے۔

  4. حکیم صاحب سے مراد منیر احمد طاہر ہیں۔ اگر ہمارے مشورے میں بھی راشد صاحب کی طرح تلخی نظر آئے تو ہمیں معاف کیجیے گا۔

  5. Khurram says:

    ذمہ داری دونوں کی ہے لیکن سب سے زیادہ حکومت کی کہ ایسے ادارے وجود میں آئیں ہی کیوں؟ کیا بلاول یا حسین نواز ایسے کسی ادارے میں داخلہ لیں گے؟ اگر نہیں توپھر باقی پاکستان کےبچوں کا کیا قصور؟

  6. Yasir Imran says:

    جی میں ڈگری لے کر سعودی عرب آیا ہوں، میرے پاس پاکستان حکومت کی یونیورسٹی کی ڈگری ہے نہ کہ کسی پرائیویٹ ادارے کی ، میں نے بعد میں ڈگری کے لیے الگ سے امتحان دیے، جس پر میرا وقت تو بہت برباد ہوا، مگر ڈگری مل گئی

    میرا اس تحریر کے لکھنےکا مقصد یہ ہے کہ سب حضرات آگاہ ہو سکیں کہ پاکستان میں تعلیم کے شعبے میں بھی کس قدر دھوکا ہو رہا ہے، میں نے راشد صاحب کی بات کا غلط مطلب نہیں لیا، بلکہ انہیں آگاہ کیا ہے کہ پاکستان کے پسماندہ علاقوں کے لوگ اتنی معلومات نہیں رکھتے، بہت شکریہ

  7. جناب میں پھر نہایت احترام سے یہی عرض کروں گا کہ گریجویشن تک پہنچتے پہنچتے ایک طالب علم خواہ وہ دیہات کا ہو یا شہر کا کم از کم دو مرتبہ اور زیادہ سے زیادہ تین مرتبہ اس مرحلے سے گزر چکا ہوتا ہے جہاں اسے یہ اندازہ ہونا چاہیے کہ کچھ اسناد صرف مجاز ادارے ہی دے سکتے ہیں جیسے میڑک اور انٹرمیڈیٹ کی اسناد اور ہمارے وقتوں میں پانچویں جماعت کا امتحان بھی بورڈ سے ہوا کرتا تھا۔ یہاں تک کے دینی مدارس سے تعلیم حاصل کرنے والے بھی جانتے ہیں جہ جو مدرسہ وفاق المدارس سے ملحقہ نہیں ہے اس کی سند آگے چل کر مشکلات پیدا کرے گی۔ اس پس منظر کے ساتھ اگر کوئی طالب علم یہ کوتاہی کرے کہ گریجویشن کی سطح پر اس بات کا ادراک نہ کرسکے تو 99 فیصد قصور اس طالب علم کا ہی ہے جو پہلے ہی ان مراحل سے گزر چکا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں حکومت پر تکیہ کر کے اپنا مستقبل برباد کرنا مزید حماقت ہے۔ کچھ چیزیں حکومت کے کرنے کی نہیں ہوتی اور اپنے آپ کو تمام دستیاب ذرائع سے انفارم رکھنے اور ان کی بنیاد پر لیے گئے فیصلوں کی ذمہ داری فرد کی اپنی ہے۔

  8. Yasir Imran says:

    جی اچھا راشد صاحب
    آپ درست فرما رہے ہیں۔

  9. معلومات کا نا ہونا یا کسی بات کی معلومات نہ لینا ہی ہماری سب سے بڑی غلطی ہے پنجابی میں جسے “گواچیاں گاواں ” ۔ 😆

  10. Saad says:

    شکریہ جناب، اچھی تحریر ہے۔
    آپ سے ایک گزارش، تحریر کی لائنوں میں تھوڑا فاصلہ بڑھائییے۔

  11. صرف آپ ہی نہیں بہت سارے لوگ دھوکہ کھا جاتے ہیں
    اور آپ تو پرانی بات کر رہے ہیں میں آج کی بات کر رہا ہوں
    یہاں راولپنڈی میں ایک جگہ ہے سکستھ روڈ
    سکستھ روڈ بولے تو سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹی کیپمسوں سے بھرپور سڑک
    یہاں کی ہر یونیورسٹی کا کسی نا کسی یونیورسٹی سے ایفیلئیشن کا دعویٰ ہے لیکن سب جھوٹ
    سب کو پتا ہے کہ یہ سارے فراڈئے ہیں لیکن ایچ ای سی یہ تو لکھ دیتی ہے اخباری اشتہار میں کہ درج ذیل یونیورسٹیز کے علاوہ کسی کی ڈگری قبول نہیں
    لیکن یہ جو کھمبیوں کی طرح یونیورسٹیاں اگی ہوئی ہیں ان کا تدارک کوئی نہیں کرتا
    پرسوں چوتھ اخبار میں خبرر تھی کہ ایک طالبعلم کو پیسے لگوا کر پرائیویٹ میٹرک کرا دیا
    وہ بھی سائنس میں
    یہ حال ہے ہمارے تعلیمی نطام، اسکے معیار اور اس کی کریڈبیلٹی کا

  12. Yasir Imran says:

    سعد صاحب، بہت شکریہ میرے بلاگ پر آنے اور اپنی رائے دینے کا، آپ کی گزارش سر آنکھوں پر لیکن میں معذرت خواہ ہوں، میں کوشش کے باوجود سطروں کا درمیانی فاصلہ نہیں بڑھا سکا، تاہم میں نے اپنا بلاگ انٹرنیٹ ایکسپلورر، فائر فاکس اور گوگل کروم پر چیک کیا ہے۔ جن میں فائر فاکس کے سوا بلاگ کی تحریر بہت اچھی ظاہر ہو رہی ہے جسے بہت آسانی سے پڑھا جاسکتا ہے، تاہم فائر فاکس میں واقعی یہ مشکل موجود ہے، اگر آپ کے لیے ممکن ہو تو بلاگ کو کسی دوسرے براؤزر میں کھول کر دیکھیں۔

    جناب ڈفر صاحب
    میری اس تحریر کا مقصد یہی تھا کہ پاکستان میں تعلیم کے شعبے میں ہونے والے دھوکوں سے بلاگرز کو روشناس کرایا جاسکے، تاہم بلاگزر کی رائے یہ ہے کہ دھوکہ دینے والے کی نہیں، دھوکہ کھانے والی کی غلطی ہے۔
    بہت شکریہ

  13. saima yasir says:

    aoa yasir sab pata ha humre yaha par usualy chte cities ma ye masla hota ha k koi guide karne wala ni hota lakin kisi na kisi ko to barish ka pehla qatra banna hota ha na tu wo ap q ni ma q ni waqai start ma bohat sare problems ko face karna parta ha lakin wo cheze bad ma insan k bohat kam ati ha insan in se bohat kch sekhta ha any how my best wishs and prayers r wid u may Allah bless u

  14. Ghulam Mustafa says:

    Slam janab hamri govt in privte institute k 7 mil kar students ka future kharab kar rahi hay hamra education mininster BA pass hota hay saray policy maker englisg logo k ghulam hay un logo k apnay bachay foerign countries may stdu kartay hau un ko gareeb k bachoo say kia
    gareeb k bachay private institutes k hatoon apna future kharab kar latay hay hameeha admission laynay say pahlay college say mutaliq detail layni zarori hay
    remeber me in ur prayers

  15. غلام مصطفی صاحب، آپ درست فرما رہے ہیں۔
    ہمارے بیشتر سیاستدانوں کو عوامی مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
    بہت شکریہ میرے بلاگ پر آنے کا

Leave a reply to Yasir Imran Cancel reply