انسانی زندگی کے مختلف ادور اور والدین کے نامناسب رویے


ہر انسان کی زندگی میں مختلف دور آتے ہیں، بچپن، لڑکپن، جوانی اور ادھیڑ عمری کے بعد بڑھاپا، بچپن اور لڑکپن میں دیکھ بھال کرنے کے لیے اللہ تعالی نے والدین کے دل میں اس قدر پیار دیا ہوتا ہے کے بچے کو بنا کسی مشکل کے نشونما پانا اور معاشرے کا حصہ بننا بہت آسان ہو جاتا ہے، اولاد جوان ہونے کے بعد ہر والدین اپنے بچوں کے لیے رفیق زندگی تلاش کرتے ہیں ، جو کہ ایک معاشرتی ذمہ داری بھی ہے، ایک دینی حکم بھی اور انسانی ضرورت بھی، لڑکیوں کو شادی کے بعد کن کن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اسکا احاطہ میں نہیں کر سکتا کیوں کہ میں ایک مرد ہوں، میں نہیں جانتا کہ لڑکیوں کے احساسات کیا ہوتے ہیں

مگر میں اپنے تجربے کی روشنی میں وہ مسائل ضرور بتا سکتا ہوں جو لڑکوں کے لیے پیدا ہوتے ہیں ، خاص کر ایسے لڑکوں کے لیے جو اپنی شریک حیات سے دور پردیس میں زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں

شادی کے فوری بعد کا عرصہ لڑکے اور لڑکی دونوں کے لیے بہت یاد گار اور حسین ہوتا ہے، اپنے شریک زندگی سے محبت ہو جاتی ہے جو کہ بالکل قدرتی بات ہے، ایسے میں والدین اور باقی بہن بھائیوں کی محبت کم نہیں ہوتی مگر صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ محبت کا اظہار کم ہو جاتا ہے کیوں کہ اب لڑکے کا وقت تقسیم ہو چکا ہے، کچھ اپنی بیوی کے لیے اور کچھ اپنے خاندان کے لیے، ایسے میں والدین ، بہن بھائی اور دوسرے عزیز و اقارب شدت سے یہ محسوس کرتے ہیں کہ لڑکا انہی بھول کر اپنی شریک حیات کو زیادہ ٹائم اور فوقیت دے سکتا ہے، اپنے پیٹ میں ۹ مہینے رکھنے والی ماں جو اپے بچے کی اک اک بات سمجھ لینے کی صلاحیت رکھتی ہے، کہ اسے کیا پسند ہے وہ کیا محسوس کرتا ہے، کس وقت اسے کس چیز کی ضرورت ہے وہ بھی اس چیز کو نہیں سمجھتی کے نئے رشتے کا کچھ تقاضا بھی ہے، جس بیوی کے لیے لڑکا مجازی خدا کے رشتے پر فائز ہے اس بے چاری لڑکی کا بھی کوئی حق ہے، وہ اپنا گھر بار اپنے والدین چھوڑ کر صرف اس لڑکے کے لیے آئی ہے، اس کی ضروریات پوری کرنا، اسے وقت دینا ضروری ہے ، مگر ایسا نہیں ہوتا، والدین بھی لڑکے کی آزمائش میں لگ جاتے ہیں کہ کب وہ ایک چھوٹی سے غلطی کرے اور والدین اسے اس بات کا احساس دلا سکیں کہ وہ اپنی بیوی کو زیادہ وقت دے رہا ہے، اور اگر آپ کی قسمت اچھی نہیں اور آپ کو بیوی بھی ایسی مل جاتی ہے جو حالات کو نہ سمجھتے ہوے اپنا اک اک حق جتانے لگ جاتی ہے اور سارا وقت شکوے شکایتوں میں گزر رہا ہے پھر سمجھ لیں کہ آپ کی زندگی سخت مشکل میں گزرنی ہے

لیکن اگر آپ کو اپنا شریک زندگی ایسا ملتا ہے جو آپ کی بات اور آپ کی مشکلات سمجھتا ہے تو پھر آپ ضرور حالات سے اچھی طرح مقابلہ کر کے اپنا وقت احسن طریقے سے نبھا سکتے ہیں, خیر بات ہو رہی تھی والدین کی، اس موضوع پر میں اگر لب کشائی کروں تو بہت سے لوگ سمجھیں گے کہ میں ایک نافرمان اور نالائق اولاد ہوں، جس اپنے والدین سے محبت نہیں ہے، میں اس بات کا جواب یہی دوں گا کہ جب آپ زندگی کے اس دور میں آئیں گے اور ان حالات سے گزریں گے تو پھر آپ ان باتوں کو سمجھیں گے، سعودی عرب، مصر اور بہت سے دوسرے ممالک میں مشترکہ خاندانی نظام کو ترک کر دیا گیا ہے صرف اسی لیے کیوں کہ اس نظام میں بے شمار خامیاں ہیں، یورپ والے تو پہلے ہی اس نظام سے ناآشنا ہیں ہر رشتے کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں، اور انسان پر عمر کے مختلف ادوار میں احساسات اور جذبات مختلف ہوتے ہیں، ہو سکتا ہے جو چیز آپ اپنی شریک حیات کے لیے مناسب سمجھ رہے ہیں وہ آپ کے والدین کو ناگوار گزرے، کیوں کہ ان کی عمر کے لحاظ سے ان کے احساسات مختلف ہیں، اور مشترکہ خاندانی نظام میں ایسے واقعات کثرت سے ہوتے ہیں

والدین کی طرف سے سختی، بار بار آزمائش، ناگواری کا اظہار والدین اور بچوں میں خلییج بھی پیدا کر سکتا ہے اور جس بات کا انہیں ڈر ہوتا ہے (کہ ان کا بیٹا انہیں چھوڑ کر بیوی کی طرف مائل نہ ہو جائے) وہ بات ہونے کے امکانات بڑھتے جاتے ہیں، ہر مسئلے کا حل سختی اور غصہ سے نہیں نکالا جا سکتا، کبھی کبھی اپنے بچوں کی من مانی یا غلطی کو سخت رویہ کی بجائے اگر پیار سے سلجھا دیا جائے تو ہو سکتا ہے اگلی بار وہ اس غلطی کو نہ دھرائے میں مانتا ہوں کہ والدین کی خدمت کرنا اور ان کے ساتھ رہنا ہمارا فرض ہے، آپ ضرور والدین سے ملیں ، انہیں اکیلا نہ چھوڑیں، ان سے روز ملنے جائیں، ان کے پاس بیٹھیں، مگر مشترکہ نظام میں بار بار چپقلشیں ہوتی ہیں پسند اور ناپسند کا ٹکرائو ہوتا رہتا ہے۔

اگر کبھی لڑکا اور لڑکی اپنی من مانی کر لیں تو والدین اپنی بہو کو قصوروار ٹھراتے ہیں، کہ ہمارا بیٹا تو ایسا نہیں تھا، بہو نے اسے ایسا کر دیا ، اس پر تعویز کر دیے، ہمارے بیٹے کو اپنے قابو میں کر لیا اور یقین مانیں جب اگر آپ پردیس میں ملازمت کرتے ہیں تو آپ کے چھٹی گزار کے چلے جانے کے بعد آپ کے جانے کے بعد آپکی شریک حیات کو سب کچھ سہنا اور برداشت کرنا پڑے گا، اس سے تلخی سے بات کرنا، اور اس کو ہر مشکل کا ذمہ دار ٹھرانا وغیرہ، اس لیے سب سے بہتر طریقہ تو یہی ہے کہ آپ اپنی شریک حیات کے لیے بھی اپنے ساتھ رہنے کا بندو بست کریں یا پھر خود پردیس چھوڑ کر اپنے ملک میں اپنے رزق کا بندو بست کر لیں

اسی طرح والدین کو سب بچوں کے ساتھ ایک جیسا پیار رکھنا چاہیے، اگر وہ کسی ایک بچے کو زیادہ توجہ دیتے ہیں تو دوسرے بچوں کو خود بخود زیادہ پیار پانے والے بچے سے حسد اور نفرت ہو جائے گی، حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے جب یوسف کو زیادہ پیار ملنے پر حسد میں مبتلا ہو گئے تو آج کل کے انسان کیا چیز ہیں، آخر پر میں اتنا کہنا چاہوں گا کہ میری ان باتوں کا مقصد قطعی یہ نہیں ہے کہ آپ اپنے والدین پر توجہ کم کر دیں، بلکہ سب رشتوں کے ساتھ انصاف کریں، اپنے والدین کی خدمت کریں ، ان سے بدتمیزی کرنے سے بچیں، ان کی ڈانٹ ہنس کر سہ لیں، اللہ تعالی آپ کو یقینن اس بات کا اجر دیں گے بہت شکریہ

About Yasir Imran

Yasir Imran is a Pakistani living in Saudi Arabia. He writes because he want to express his thoughts. It is not necessary you agree what he says, You may express your thoughts in your comments. Once reviewed and approved your comments will appear in the discussion.
This entry was posted in Features, Urdu and tagged , , , , , , , , , , , , , , , , , . Bookmark the permalink.

12 Responses to انسانی زندگی کے مختلف ادور اور والدین کے نامناسب رویے

  1. بڑی اندر کی باتیں لکھیں ہیں آپ نے یہ واقعی ایک گھریلو مسلہ ہے جو ہر گھر میں ہے اس سے خاندان میں دراڑیں بھی پڑ جاتیں ہیں اور ٹوٹ بھی جاتے ہیں ۔

  2. آپ کو یاد ہو گا کہ آپ نے جو حل پیش کیا وہ ہمارا تجویز کردہ ہے جو ہم نے آپ کو شادی کے بعد بتایا تھا۔ ہمارا معاشرہ ان مسائل سے بھرا پڑا ہے۔ وہی لڑکی جسے ہم لوگ بڑے پیار سے بیاہ کر لاتے ہیں ہماری دشمن بن جاتی ہے۔ بعض اوقات تو والدین باہر رہنے والے بیٹے کو حکم دیتے ہیں کہ لڑکی کو طلاق بھیج دو وہ اس کی شادی کسی دوسری لڑکی سے کر دیں گے لیکن دوسری شادی کے بعد بھی مسئلہ وہیں کا وہیں رہتا ہے۔
    لڑکی کا قصور اس لیے کم ہوتا ہے کہ اس کا ساتھی اسے چھوڑ کر باہر چلا جاتا ہے اور وہ اکیلی پورے خاندان کا مقابلہ کرتی ہے۔ ہمارے ارد گرد کئی ایسے واقعات ہوئے ہیں اور ان کی روشنی میں ہم نے یہی سوچا کہ بچے ہمیشہ اپنے پاس ہونے چاہئیں۔ ایسے حالات میں لڑکے کا کردار بہت اہم ہوتا ہے کیونکہ اسی نے بیوی اور والدین بہین بھائیوں میں توازن رکھنا ہوتا ہے اور یہ دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔

  3. مثل مشہور ہے کہ تالی دو ہاتھوں سے بجتی ہے ۔ اگر والدین اور اولاد دونوں خودغرضی اپنا لیں تب حالات بگڑت٦ے ہیں

  4. Yasir Imran says:

    کنفیوز کامی

    آپ تھیک فرما رہے ہیں ، شکریہ رائے دینے کا

    افضل انکل

    آپ کی بات سے لگا کہ آپ ان مسا ئل کو کافی اچھی طرح جانتے ہیں اور آپ کی بات حرف بہ حرف سچ ہے، طلاق والا ایک مسلہ گزشتہ دنوں ہمارے قریبی عزیزوں کے ساتھ بھی پیش آیا، لڑکا پردیس میں تھا اور اس نے والدین کے کہنے پر اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور سوچا بھی نہیں کہ اس سے ان دونوں میاں بیوی کی زندگی پر کتنا برا اثر پڑے گا۔ دوسری بات بھی سچ ہے، والدین پہلے بڑے لاڈوں سے بہو لے کر آتے ہیں مگر شادی کے بعد ان کے لاڈ کم پڑ جاتے ہیں ، اس کی وجہ کیا ہے، یہ میں ابھی تک نہیں جان سکا

  5. Yasir Imran says:

    اجمل انکل

    آپ کی بات حالانکہ میری تحریر کے حق میں نہیں، مگر اس بات میں بھی وزن ہے، یقینن کچھ غلطیاں بچے کرتے ہیں کچھ ماں باپ ، شایہ اولاد کو شادی کے بعد ضرورت سے زیادہ محتاط ہو جانا چاہیے، مگر میں آپ سے ذرا تفصیلی جواب کی توقع کر رہا تھا، اگر وقت ملا تو ضرور کچھ رہنمائی کیجیے گا۔

  6. ہم اس موضوع پر لکھنے کا سوچ رہے ہیں اور اجمل صاحب سے بھی گزارش کریں گے کہ وہ نوجوان نسل کی رہنمائی کیلیے کچھ لکھیں۔ امید ہے ان تحاریر اور ان پر تبصروں کی شکل میں کافی مواد اکٹھا ہو جائے گا جو سب کے کام آئے گا۔

  7. Jafar says:

    تازہ تازہ زخمی لگتے ہیں آپ۔۔۔
    میری ناقص رائے میں تو یہ جہالت کے کرشمے ہیں۔۔۔
    اس میں کچھ ہماری بے لچک فطرتیں بھی کمال دکھاتی ہیں۔۔۔
    افضل صاحب نے بجا کہا کہ لڑکا ہی قربانی کا بکرا بنتا ہے اس سارے عمل میں۔۔۔
    ایک مفت مشورہ بھی ہے۔۔ بیرون ملک صرف اس صورت میں جائیں۔۔جب اس کے سوا آپ کے تمام آپشن ختم ہوچکے ہوں۔۔۔ اور زندگی موت کا مسئلہ ہو۔۔۔

  8. Pingback: » بیوی بچوں سے دور زندگی بھی کوئی زندگی ہے میرا پاکستان:

  9. ماشاءاللہ۔ آپ نے ایک نہائت ھساس موجوع پہ نہائت اچھے طریقے سے اپنے خیالات کا ازہار کیا ہے۔

    ہمارے معاشرے میں کوئی ایک پیچیدگی نہیں بلکہ اسمیں بہت سی پیچیدگیاں ہیں۔ جسکی بنیاد ہمارا دوہرا معیار ہے ۔ اللہ جانے ہم لوگ کیونکر وہ بات دوسروں کے لئیے پسند نہیں کرتے جو اپنے لئیے پسند کرتے ہیں۔ اور ہر وہ کام کرتے ہیں جس سے دوسرے کو تکلیف پہنچے۔

    میری ذاتی رائے میں یہ جہالت اور پاکستان میں بے روزگاری کی صورت میں لوگوں کے پاس وافر وقت ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔

    لوگوں کے پاس جوں جوں علم کی دولت اور روزگار مہیا ہوتا ہے ان کے پاس کچھ کہنے کو نہیں رہتا اور نہ ہی وقت ہوتا ہے کہ وہ کچھ کہہ سکیں۔ جب ہم باہر کے معاشروں سے اپنا موازنہ کرتے ہیں تو ایک بات بھول جاتے ہیں کہ باہر لوگوں کے پاس جہاں علم کے ساتھ ساتھ اچھا روزگار بھی ہوتا ہے کہ ہر کوئی خود کفیل ہے اور اسے اپنے معمولی معمولی اخراجات کے لئیے کسی دوسرے کا محتاج نہیں ہونا پڑتا ۔ وہیں اس کے پاس روزمرہ روزگار کی وجہ سے کسی دوسرے کے لئیے وقت بھی نہیں ہوتا ۔ سکے پاس اس کے روزگار کی صورت میں ایک اینجنڈا ہوتا ہے کہ آج یہ کرونگا کال وہ لینا ہے ۔ اگلے ماہ کی تنخواہ سے ےعھ خریدوں گا ۔ اگلے سال بنک سے گاڑی لوں گا ۔ وغیرہ وغیرہ۔
    اور جب وہ روزگار ہی نہ ہو اور معاشرے کے دس میں سے نو افراد کا المیہ ہی یہ ہو کہ نا علم ۔ نہ راوزگار۔ چھوٹی چھوٹی ضروریات کے لئیے دوسروں کی محتاجی ۔ اور جہالت اور وقت کی بے پناھ فروانی۔ اور دل میں حسد بغض وغیرہ خود بخود پیدا ہونا شروع ہوجاتا ہے۔

    عقلمند ماں باپ شادی سے پہلے ہی اپنے بیٹے کا الگ گھر تیار کروالیتے ہیں۔ اب بیٹے اور بہو کی مرضی اور حالات پہ منحصر ہے کہ وہ الگ رہیں یا باقی خاندان کے ساتھ۔ نیز والدین اپنے بیٹوں کی کمائی پہ نظر نہیں رکھتے۔ یہ عقلمند لوگوں کی بات ہے۔ جو ہمارے ہاں بہت کم کم پائے جاتے ہیں۔

  10. حساس ، موضوع اور اظہار پڑہا جائے

  11. بہت اچھے یاسر بھائی۔ پاکستان میں بہت سے مسائل ایسے ہیں جن پر بات چیت نہیں ہوتی۔ غلط العام رائج ہیں۔ اور پاکستان کی اکثریت میں کسی کی بات سننے کا حوصلہ بھی نہیں رہا۔ معمولی باتوں پر انا کا مسئلہ بن جاتا ہے اور لڑائی جھگڑے شروع ہوجاتے ہیں۔ ہر انسان خود کو عقلِ کل اور دوسرے کو احمق سمجھتا ہے کوئی کسی کی بات سننے کا روادار نہیں ہے۔
    ایسے تمام مسائل پر لکھتے رہیں جن پر لوگ خوف کی وجہ سے قلم اٹھانے کی ہمت نہیں کرتے۔
    شکریہ

  12. Pingback: نکاح کے ساتھ مذاق | Yasir Imran Mirza

Leave a comment