جب زندگی شروع ہوگی ساتواں باب: حضرت عیسیٰ کی گواہی


میری آنکھ کھلی تو میں نے خود کو ایک نفیس اور نرم و نازک بستر پر پایا۔ ناعمہ بستر پر میرے قریب بیٹھی پریشان نگا ہوں سے مجھے دیکھ رہی تھی۔ میری آنکھیں کھلتے دیکھ کر ایک دم سے اس کے چہرے پر رونق آ گئی۔ اس نے بے اختیار پوچھا:

’’آپ ٹھیک ہیں ؟‘‘
’’میں کہاں ہوں ؟‘‘، میں نے جواب دینے کے بجائے خود ایک سوال کر دیا۔
’’آپ میرے پاس میرے خیمے میں ہیں ۔ صالح آپ کو اس حال میں یہاں لائے تھے کہ آپ بے ہوش تھے ۔‘‘
’’وہ خود کہاں ہے ؟‘‘
’’وہ باہر ہیں ۔ ٹھہریں ، میں انہیں اندر بلاتی ہوں ۔‘‘
اس کی بات پوری ہونے سے قبل ہی صالح سلام کرتا ہوا اندر داخل ہو گیا۔ اس کے چہرے پر اطمینان کی مسکراہٹ تھی۔ میں اسے دیکھ کر اٹھ بیٹھا اور پوچھا:
’’کیا ہوا تھا؟‘‘
’’تم بے ہوش ہوگئے تھے ۔‘‘
’’باخدا میں نے اپنے رب کا یہ روپ پہلی دفعہ دیکھا تھا۔ خدا کے بارے میں میرے تمام اندازے غلط تھے ۔ وہ اس سے کہیں زیادہ عظیم ہے جتنا میں تصور کرسکتا تھا۔ مجھے اب اپنی زندگی کے ہر اس لمحے پر افسوس ہے جو میں نے خدا کی عظمت کے احساس میں بسر نہیں کیا۔‘‘
میری بات سن کر صالح نے کہا:

’’یہ غیب اور حضور کا فرق ہے ۔ دنیا میں خدا غیب میں ہوا کرتا تھا۔ آج پہلا موقع تھا کہ خدا نے غیب کا پردہ اٹھا کر انسان کو مخاطب کیا تھا۔ تم نصیبے والے ہو کہ تم نے غیب میں رہ کر خدا کی عظمت کو دریافت کر لیا اور خود کو اس کے سامنے بے وقعت کر دیا تھا۔ اسی لیے آج تم پر اللہ کا خصوصی کرم ہے ۔‘‘

’’مگر یہ بے ہوش کیوں ہوئے تھے ؟‘‘، ناعمہ نے گفتگو میں مداخلت کرتے ہوئے پوچھا۔
’’دراصل ہوا یہ تھا کہ ہم عرش کے بائیں طرف مجرموں کے حصے میں کھڑ ے تھے ۔ اُسی وقت فرشتوں کا نزول شروع ہو گیا اور حساب کتاب کا آغاز ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے چونکہ غضب کے عالم میں گفتگو شروع کی تھی اور اس ناراضی کا اصل رخ بائیں ہاتھ والوں کی طرف ہی تھا، اس لیے سب سے زیادہ اس کا اثر اسی بائیں طرف ہورہا تھا۔ اللہ تعالیٰ اپنی صفات سے کبھی مغلوب نہیں ہوتے ، اس لیے اس غضب میں ہونے کے باوجود بھی انہیں احساس تھا کہ اس وقت ان کا ایک محبوب بندہ الٹے ہاتھ کی طرف موجود ہے ۔ اس لیے انہوں نے عبد اللہ کو بے ہوش کر دیا۔ وہ اگر ایسا نہ کرتے تو عبد اللہ کو اس قہر و غضب کا سامنا کرنا پڑ جاتا جو بائیں جانب والوں پر اس وقت ہورہا تھا۔‘‘
صالح کی بات سن کر بے اختیار میری آنکھوں سے اپنے رب کریم کے لیے احسان مندی کے آنسو جاری ہوگئے ۔ میں بستر سے اترا اور سجدے میں گرگیا۔ میرے منہ سے بے اختیار یہ الفاظ نکلنے لگے :
’’معبود تو نے مجھے کب کب یاد نہیں رکھا۔ ماں کے پیٹ سے آج کے دن تک تیری کسی مصروفیت نے تجھے مجھ سے غافل نہیں کیا اور میں ؟ میں نے کبھی تیری کریم ہستی کی قدر نہ کی۔ میں نے کبھی تیرے کسی احسان کا شکر ادا نہ کیا۔ میں نے کبھی تیری بندگی کا حق ادا نہ کیا۔ تو پاک ہے ۔ تو بلند ہے ۔ ہر حمد تیرے ہی لیے ہے اور ہر شکر تیرا ہی ہے ۔ مجھے معاف کر دے اور اپنی رحمتوں کے سائے میں لے لے ۔ اگر تو نے مجھے معاف نہیں کیا تو میں ہلاک ہوجاؤں گا، میں برباد ہوجاؤں گا۔‘‘

میں دیر تک یہی دعا مانگتا رہا۔ ناعمہ نے میری پیٹھ پر ہاتھ پھیر کر کہا:
’’اب آپ اٹھیے ۔ آپ نے تو عمر بھر اللہ کی مرضی اور پسند کی زندگی گزاری ہے ۔ میں آپ کو جانتی ہوں ۔‘‘
ناعمہ کی بات سن کر میں خاموشی سے اٹھ کھڑ ا ہوا اور اسے دیکھتے ہوئے بولا:
’’تم ابھی خدا کے احسانوں اور اس کی عظمت کو نہیں جانتیں ۔ ۔ ۔ وگرنہ کبھی یہ الفاظ نہ کہتیں ۔‘‘
’’عبد اللہ ٹھیک کہہ رہا ہے ناعمہ۔‘‘، صالح نے میری تائید کرتے ہوئے کہا۔
’’انسان کا بڑ ے سے بڑ ا عمل بھی خدا کی چھوٹی سے چھوٹی عنایت کے مقابلے میں کچھ نہیں ۔ خدا عبد اللہ سے زبان چھین لیتا تو یہ ایک لفظ بول نہیں سکتا تھا۔ ہاتھ چھین لیتا تو لکھ نہیں سکتا تھا۔ ہر نعمت اور ہر توفیق اسی کی تھی۔ انسان کچھ بھی نہیں ۔ سب کچھ خدا ہے ۔‘‘
’’آپ ٹھیک کہتے ہیں ۔ میں نے اس پہلو سے غور نہیں کیا تھا۔‘‘، ناعمہ نے اعتراف میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
’’اب ہمیں کہاں جانا ہے ؟‘‘، میں نے صالح سے دریافت کیا۔
’’حساب کتاب شروع ہو چکا ہے ۔ تمھیں وہاں پہنچنا ہو گا۔ لیکن پہلے ایک اچھی خبر سنو۔‘‘
’’وہ کیا ہے ؟‘‘
’’جب حساب کتاب شروع ہوا تو اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے امت مسلمہ کے حساب کا فیصلہ کیا ہے ۔ اور جانتے ہو اس عمل میں تمھاری بیٹی لیلیٰ نجات پا گئی۔‘‘
’’کیا؟‘‘، میں حیرت اور خوشی کے مارے چلا اٹھا۔
’’ہاں! صالح ٹھیک کہتے ہیں ۔‘‘، ناعمہ بولی۔
’’میں اس سے مل چکی ہوں ۔ وہ اپنے باقی بھائی بہنوں کے ساتھ دوسرے خیمے میں موجود ہے ۔ وہاں سب آپ کا انتظار کر رہے ہیں ۔‘‘
’’اور جمشید؟‘‘، میں نے صالح سے اپنے بڑ ے بیٹے کے متعلق پوچھا۔
جواب میں ایک سوگوار خاموشی چھا گئی۔ مجھے اپنے سوال کا جواب مل چکا تھا۔ میں نے کہا:
’’پھر میں واپس حشر کے میدان میں جانا پسند کروں گا۔ شاید کوئی راستہ نکل آئے ۔‘‘
’’ٹھیک ہے ۔‘‘، صالح بولا اور پھر میرا ہاتھ تھام کر خیمے سے باہر آ گیا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
خیمے سے باہر آ کر میرا پہلا سوال یہ تھا:
’’کیا میں جمشید کے لیے کچھ کرسکتا ہوں ؟‘‘
’’تم لیلیٰ کے لیے کچھ نہیں کرسکے تو جمشید کے لیے کیا کرسکو گے ۔ کیا تم اللہ تعالیٰ کو بتاؤ گے کہ اسے کیا کرنا چاہیے ؟‘‘
’’استغفرا للہ۔ یہ میرا مطلب ہرگز نہیں تھا۔‘‘
پھر کچھ دیر توقف کے بعد میں نے دریافت کیا:
’’اچھا یہ بتاؤ کہ میرے بے ہوش ہونے کے بعد حشر کے میدان میں کیا ہوا؟‘‘
’’تم جب ہوش میں تھے تمھیں اس وقت بھی پوری طرح معلوم نہیں تھا کہ وہاں کیا ہورہا ہے ۔ اسے پوچھنا ہے تو کسی مجرم سے پوچھو۔ ادھر گروہ در گروہ فرشتے نازل ہورہے تھے اور ادھر مجرموں کی جان پر بن رہی تھی۔ پھر جس وقت سجدے میں جانے کا حکم ہوا تو سارے لوگ سجدے میں تھے اور یہ بدبخت اس وقت بھی خدا کے سامنے سینہ تانے کھڑ ے تھے ۔‘‘

’’یہ ان کی کمر تختہ ہوجانے کا نتیجہ تھا نا؟‘‘

’’ہاں یہ ان کی سزا تھی۔ اس کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے دریافت کیا کہ میں بادشاہ ہوں ۔ میرے سوا ور بادشاہ کہاں ہیں؟ اس وقت بھی یہی مجرم سینہ تانے اس کے سامنے کھڑ ے تھے ۔ کاش! تم دیکھ سکتے کہ اس وقت ان مجرموں کے ساتھ کیا ہورہا تھا۔ ان کے دل کٹے جا رہے تھے ۔ کلیجے منہ کو آ رہے تھے ۔ آنکھیں خوف اور دہشت سے پھٹی ہوئی تھیں۔ مجرم بے بسی سے اپنی انگلیاں چبا رہے تھے ، مگر مجبور تھے کہ اس وقت بھی ساری کائنات کے بادشاہ کے سامنے سینہ تان کر کھڑ ے رہیں ۔‘‘
’’پھر کیا ہوا؟‘‘

’’ظاہر ہے حساب کتاب تو فرداً فرداً ہونا تھا، لیکن اس موقع پر مجرموں کے سامنے ان کا انجام بالکل نمایاں کر دیا گیا۔ وہ اس طرح کہ جہنم کا دہانہ مکمل طور پر کھول دیا گیا۔ جس کے بعد میدان حشر کے بائیں حصے کا ماحول انتہائی خوفناک ہو گیا۔ جہنم گویا جوش کے مارے ابلی جا رہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ مجرموں کو دیکھ کر شدت غضب سے پھٹی جا رہی ہو۔ اس کے دھاڑ نے کی آوازیں دور دور تک سنی جا رہی تھیں اور اس کے شعلے بے قابو ہوکر باہر نکلے جا رہے تھے ۔ یہ شعلے اتنے بڑ ے تھے کہ ان سے اٹھنے والی چنگاڑ یاں بڑ ے بڑ ے محلات جتنی وسیع و عریض تھیں اور ان کے بلند ہونے سے آسمان پر گویا زرد اونٹوں کے رقص کا سا سماں بندھ رہا تھا۔ نہ پوچھو کہ یہ سب کچھ دیکھ کر لوگوں کی حالت کیا ہوگئی تھی۔ انہیں محسوس یہ ہورہا تھا کہ اس سے قبل حشر کی جو سختیاں تھیں وہ کچھ بھی نہیں تھیں ۔‘‘

’’حساب کتاب کیسے شروع ہوا؟‘‘
’’سب سے پہلے حضرت آدم کو پکارا گیا جو پوری انسانیت کے باپ اور پہلے نبی تھے ۔‘‘
انہوں نے عرض کیا:
’’لبیک و سعدیک۔ میں حاضر ہوں اور تیری خدمت میں مستعد ہوں اور سب بھلائیاں تیرے دونوں ہاتھوں میں ہیں ۔‘‘
’’اپنی اولاد میں سے اہل جہنم کو الگ کر لو۔‘‘، حکم ہوا۔
’’کتنوں کو الگ کروں ؟‘‘، انھوں نے دریافت کیا۔

’’ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے ۔‘‘، ارشاد ہوا۔

’’تم اندازہ نہیں کرسکتے عبد اللہ کہ یہ سن کر حشر کے میدان میں کیا کہرام مچ گیا تھا۔‘‘

’’لیکن اتنی بڑ ی تعداد میں لوگوں کی جہنم کا فیصلہ کیوں ہوا؟‘‘، میں نے دریافت کیا۔

’’یہ فیصلہ نہیں اس بات کا اظہار تھا کہ میدان حشر میں جو لوگ موجود ہیں ، ان میں ہزار میں سے ایک ہی اس قابل ہے کہ جنت میں جا سکے ۔ دراصل انسانیت مجموعی طور پر ایمان و اخلاق کے امتحان میں بری طرح فیل ہوئی ہے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے عدل کے تحت اصولی طور پر اتنے ہی لوگ جہنم کے مستحق ہو چکے ہیں ۔ مگر جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا ہی میں بتادیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سو حصے کیے جائیں تو اس کی رحمت کا صرف ایک حصہ دنیا میں ظاہر ہوا تھا اور باقی ننانوے حصے اس نے آج کے دن کے لیے روک رکھے تھے ۔ چنانچہ اس کی رحمت کا ظہور ہوا اور اس نے ناکام لوگوں کی جہنم کا فیصلہ سنانے کے بجائے پہلے مرحلے پر ان لوگوں کو بلانے کا فیصلہ کیا جن میں کامیابی اور نجات پانے کے امکان سب سے زیادہ تھے ۔‘‘
’’یعنی مجموعی طور پر اچھے لوگ؟‘‘

’’ہاں ۔ ہر امت کے ان لوگوں کو جن کی نجات بس ایک رسمی حساب کتاب کا تقاضا کرتی ہے ۔ اس عمل کا آغاز امت مسلمہ سے شروع ہو چکا ہے پھر دیگر امتوں کا نمبر بھی جلد آجائے گا کیونکہ کل انسانی آبادی میں سے ایسے لوگ صرف ایک فیصد ہی ہیں ۔ باقی لوگوں کا معاملہ وہ بعد میں دیکھیں گے ۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ اگر حشر کی سختی کسی کے گنا ہوں کا بدل بن سکتی ہے تو بن جائے ۔‘‘، یہ کہنے کے بعد صالح لمحہ بھر کو رکا اور پھر تأسف سے بولا:
’’ویسے میں دوسرے لوگوں کے لیے زیادہ امکانات نہیں دیکھتا۔‘‘
’’کیوں ؟‘‘، میں نے پوچھا۔
’’اس کی وجہ شرک ہے ۔ اللہ تعالیٰ شرک کے معاملے میں بہت غیرت مند ہیں ۔ تم جانتے ہو کہ انسانیت کا ہر دور میں سب سے بڑ ا مسئلہ شرک ہی رہا ہے ۔ اسی شرک کی وجہ سے آج سب سے زیادہ لوگ مارے جائیں گے ۔ کیونکہ شرک کی معافی کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے ۔ ہاں کسی کے حالات اور ماحول کا کوئی عذر ہوا تو خیر ہے وگرنہ شرک کرنے والے کسی شخص کے لیے آج نجات کی معمولی سی بھی کوئی امید نہیں ہے ۔‘‘
’’چاہے وہ مسلمان ہوں ؟‘‘، میں نے دریافت کیا۔
’’ہاں ۔‘‘، صالح نے جواب دیا۔
’’شرک جہنم کی آگ کا شعلہ تھا۔ آج یہ لازماً ہر اس شخص کو جلائے گا جس نے اللہ کے سوا کسی اور کو اس کی ذات، صفات یا حقوق و اختیارات میں شریک ٹھہرایا تھا۔ غیر اللہ کی عبادت کی تھی۔ اس سے دعا مانگی تھی۔ اس کو سجدہ کیا تھا۔ اس کو خدا کا شریک سمجھا تھا اور صفات و اختیاراتِ الٰہی میں حصہ دار ٹھہرایا تھا۔‘‘
’’اللہ اکبر۔ لا الٰہ الاللہ! ‘‘، بے اختیار میرے منہ سے نکلا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
’’ایک بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔‘‘، میں نے چلتے چلتے صالح سے پوچھا؟
’’وہ کیا؟‘‘
’’وہ یہ کہ اولین سے آخرین تک مسلمانوں کی تعداد کروڑ وں بلکہ اربوں میں تھی۔ تو پھر لیلیٰ کا نمبر بالکل ابتدا ہی میں کیسے آ گیا؟‘‘
’’تم کیا سمجھتے ہو کہ اللہ تعالیٰ شناختی کارڈ دیکھ کر فیصلہ کرتے ہیں کہ کون مسلمان ہے اور کون نہیں ؟‘‘
’’میں سمجھا نہیں کہ تمھاری اس بات کا کیا مطلب ہے ؟‘‘
’’مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی غالب ترین اکثریت نے اپنے لیے مسلمان ہونے کی شناخت پسند ہی نہیں کی۔ بیشتر لوگوں کے لیے ان کا اپنا فرقہ، اپنے اکابرین اور اپنا مسلک ہی اصل شناخت بنا رہا۔ چنانچہ آج کے دن جب امت مسلمہ کا حساب کتاب شروع ہوا تو پہلے پہل صرف ان لوگوں کو بلایا گیا جو صدق دل کے ساتھ توحید کے ماننے والے اور ہر قسم کی فرقہ واریت سے اوپر اٹھ کر صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اپنی نسبت کرنے والے ، ہر طرح کی بدعتوں اور انحراف سے اپنے دین کو محفوظ رکھنے والے لوگ تھے ۔ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے کبھی حق کے معاملے میں اپنے تعصبات اور وابستگیوں کو اہمیت نہیں دی۔ جب کبھی حق سامنے آیا انھوں نے کھلے دل سے اسے قبول کیا۔ ایسے لوگوں میں عرش کے سائے تلے کھڑ ے صالحین بھی شامل تھے اور وہ لوگ بھی جن کے اچھے اعمال کے ساتھ برے رویے بھی ملے ہوئے تھے اور اسی بنا پر وہ میدان حشر میں کھڑ ے تھے ۔ مگر اللہ تعالیٰ کی ذاتِ کریم نے ان کے برے اعمال کو نظر انداز کر دیا اور نیک اعمال کی بنا پر نجات کا پروانہ ان کے ہاتھ میں تھمادیا۔ ایسے لوگوں کی تعداد بہت کم تھی۔ اس لیے تمھاری بیٹی لیلیٰ کا نمبر جلدی آ گیا۔ وہ کم از کم اس معاملے میں بالکل پکی نکلی تھی۔ جو اس کی عملی کمزوریاں تھی وہ حشر کی سختی جھیلنے کی بنا پر قابل مؤاخذہ قرار نہیں پائیں ۔ بلکہ ربِّ کریم نے کمالِ عنایت سے اسے بھی تمھارے ساتھ کر دیا، حالانکہ اس کے عمل تمھارے جیسے نہیں تھے ۔‘‘
’’مگر میرا حساب کتاب اور فیصلہ تو ابھی ہوا نہیں ۔‘‘
’’تم اس وقت جہاں ہو اس کا مطلب ہی یہ ہے کہ فیصلہ ہو چکا ہے ۔ البتہ اعلان ابھی نہیں ہوا۔ اور بے فکر رہو، حشر کے دن کے اختتام پر سب سے آخر میں ہو گا۔‘‘
’’ایسا کیوں ؟‘‘، میں نے دریافت کیا تو صالح نے وضاحت کی:
’’میں نے پہلے تمھیں بتایا تھا کہ چار قسم کے لوگ ہیں جن کی نجات کا فیصلہ موت کے وقت ہی ہوجاتا ہے یعنی انبیا، صدیقین، شہدا اور صالحین۔‘‘
میں نے اثبات میں گردن ہلائی۔ صالح نے اپنی بات جاری رکھی:
’’ان میں سے انبیا اور شہدا وہ لوگ ہیں جن کا اصل کارنامہ عام لوگوں پر دینِ حق کی شہادت دینا اور توحید و آخرت کی طرف لوگوں کو بلانا ہے ۔ آج قیامت کے دن ان دونوں گروہوں کے افراد اپنی اس شہادت کی روداد اللہ کے حضور پیش کریں گے جو انہوں نے دنیا میں لوگوں پر دی تھی۔ اس طرح لوگوں کے پاس یہ عذر نہیں رہ جائے گا کہ حق اور سچائی انہیں معلوم نہیں ہو سکی۔ کیونکہ یہ انبیا اور شہدا سچائی کو کھول کھول کر بیان کرتے رہے تھے ۔
چنانچہ اس شہادت کی بنیاد پر لوگوں کا احتساب ہو گا اور ان کے ابدی مستقبل کا فیصلہ کر دیا جائے گا۔ یہ فیصلے ہوتے رہیں گے یہاں تک کہ سارے انسان نمٹ جائیں گے اور آخر میں تمھارے جیسے سارے شہدا کو بلا کر ان کی کامیابی کا اعلان کیا جائے گا۔ اس کے بعد پھر کہیں جا کر لوگوں کو جنت اور جہنم کی طرف روانہ کیا جائے گا۔‘‘
’’تو اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ فوراً جنت یا جہنم میں نہیں جائیں گے ۔‘‘
’’نہیں فوراً نہیں جائیں گے ۔ بلکہ ایک ایک شخص کا حساب کتاب ہوتا جائے گا۔ اگر وہ کامیاب ہے تو سیدھے ہاتھ کی طرف عزت و آسائش میں اور ناکام ہے تو الٹے ہاتھ کی طرف ذلت اور عذاب میں کھڑ ا کر دیا جائے گا۔ جب سب لوگوں کا حساب کتاب ہوجائے گا تو پھر لوگ گروہ در گروہ جنت اور جہنم کی طرف لے جائے جائیں گے ۔‘‘
’’اور سب سے پہلے ؟‘‘
’’سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنت کا دروازہ کھلوائیں گے اور پھر اہل جنت زبردست استقبال اور سلام و خیر مقدم کے ساتھ جنت میں داخل ہوں گے ۔‘‘
’’اس وقت رسول اللہ کہاں ہیں ؟‘‘
’’اس وقت حضور حوضِ کوثر کے پاس ہیں ۔ آپ کی امت میں سے جس کسی کا حساب کتاب ہوجاتا ہے اور وہ کامیاب ہوتا ہے تو اسے پہلے حضور کے پاس لایا جاتا ہے جہاں جامِ کوثر سے اس کی تواضع ہوتی ہے ۔ جس کے بعد وہ نہ صرف حشر کی ساری سختی اور پیاس بھول جاتا ہے بلکہ آئندہ پھر دوبارہ کبھی پیاسا نہیں ہوتا۔ ویسے تمھیں جام کوثر یاد ہو گا؟‘‘
’’کیوں نہیں ؟‘‘، میں نے جواب دیا۔
صالح کی باتیں سن کر میرے دل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کا اشیاق پیدا ہو گیا۔ میں نے صالح سے کہا:
’’کیوں نہ ہم پہلے بارگاہ رسالت میں حاضر ہوجائیں ۔‘‘
ابھی میری زبان سے یہ جملہ نکلا ہی تھا کہ ایک صدا بلند ہوئی:
’’امتِ محمدیہ کے کامیاب لوگوں کا حساب مکمل ہو گیا ہے ۔ اب امت عیسوی کا حساب شروع ہورہا ہے ۔ عیسیٰ ابن مریم مسیح اللہ کے رسول اور بنی اسرائیل کے آخری پیغمبر پروردگار عالم کی بارگاہ میں حاضر ہوں ۔‘‘
میں نے سوالیہ نظروں سے صالح کو دیکھا تو اس نے کہا:
’’اب حضرت عیسیٰ اپنی قوم پر گواہی دیں گے ۔ وہ اللہ تعالیٰ کے سوال کے جواب میں اپنی تعلیمات کا خلاصہ پیش کریں گے ۔ یہ اپنی قوم کے مجرمین کے خلاف ان کی شہادت ہو گی اور صحیح عقیدے اور عمل والوں کے حق میں یہ ایک نوعیت کی شفاعت بن جائے گی۔ اس کے بعد ان کی امت میں سے جن لوگوں کے عقیدے بالکل اس تعلیم کے مطابق ہوئے ، ان کی غلطیاں اللہ تعالیٰ نظر انداز کر دیں گے اور سرسری حساب کتاب کے بعد وہ سب کامیاب قرار پائیں گے۔‘‘
’’کیا یہی کچھ مسلمانوں کے معاملے میں ہوا تھا؟‘‘
’’ہاں سب سے پہلے نبی آخر الزماں کو بلایا گیا تھا اور انھوں نے گواہی دی تھی۔ یہ گواہی آپ کا انکار کرنے اور آپ کی نافرمانی کرنے والوں کے خلاف ایک شہادت بن گئی۔ کاش تم وہ منظر دیکھ لیتے جب ان میں سے ہر شخص کی خواہش یہ ہوگئی تھی کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سماجائے ۔ البتہ یہ شہادت لیلیٰ جیسے لوگوں کے حق میں ایک نوعیت کی شفاعت بن گئی۔ گرچہ نجات کی اصل وجہ یہ تھی کہ ان کا ایمان و عمل مجموعی طور پر حضور کی شہادت کے مطابق تھا۔‘‘
’’اس کا مطلب ہے کہ ابھی امت مسلمہ کے صرف ان لوگوں کو نجات ملی ہے جن کا عقیدہ و عمل حضور کی تعلیمات کے مطابق تھا؟‘‘
’’ہاں ان کی غلطیاں نظر انداز کر دی گئیں ۔ اور یہی دیگر انبیا کی امتوں کے ساتھ ہو گا۔ تمام انبیا کی امتوں کے ان لوگوں کو نجات مل جائے گی جن کا عقیدہ و عمل اپنے نبی کی تعلیمات کے مطابق ہو گا۔ اس کے بعد میدان حشر میں صرف مجرم اور نافرمان ہی فیصلے کے منتظر رہ جائیں گے ۔‘‘
’’پھر کیا ہو گا؟‘‘
’’اس کے بعد عمومی حساب کتاب شروع ہو گا۔‘‘
’’عمومی حساب کتاب؟‘‘، میں نے سوالیہ انداز میں پوچھا تو عبد اللہ نے کہا:
’’تمام امتوں کے حساب کتاب کا پہلا مرحلہ وہ ہے جس میں صالحین کی کامیابی کا اعلان ہورہا ہے اور لیلیٰ جیسے لوگوں کو رسمی حساب کتاب کے بعد فارغ کیا جا رہا ہے ۔ اس کے بعد عمومی حساب کتاب شروع ہو گا جس میں اعمال کی پوری جانچ پڑ تال کے بعد فیصلہ ہو گا۔ ظاہر ہے اس کے نتیجے میں سارے مجرمین زد میں آجائیں گے ۔ البتہ اہل ایمان میں سے بہت سے لوگ اپنے گنا ہوں کے باوجود اللہ کی رحمت کی بنا پر نجات پائیں گے اور ان کی میزان کا دایاں پلڑ ا بھاری ہوجائے گا۔ ان کا میدان حشر میں خوار و خراب ہونا ان کی معافی کا بہانہ بن جائے گا۔ اسی کو میں عمومی حساب کتاب کہہ رہا ہوں ۔
البتہ کچھ لوگ ہوں گے جن کو آخری وقت تک کے لیے روک دیا جائے گا اور حساب کتاب کے لیے نہیں بلایا جائے گا۔ یہ وہ مؤمن ہوں گے جن پر گنا ہوں کا بوجھ بہت زیادہ ہو گا۔ ان لوگوں کے لیے انتظار کا یہ انتہائی طویل وقت ہزاروں بلکہ شاید لاکھوں سال تک چلتا چلا جائے گا جس میں انہیں بدترین سختیاں ، مصیبت اور پریشانی جھیلنا ہو گی۔ پھر کہیں جا کر ان کی نجات کا کوئی امکان پیدا ہو گا۔‘‘
’’وہ امکان کیا ہو گا؟‘‘
’’وہ امکان اللہ تعالیٰ کی اس رحمت کا ظہور ہے کہ وہ اپنے عدل کے مطابق لوگوں کو مکمل سزا دینے کے بجائے حشر کی سزا کو ان کے گنا ہوں کا کفارہ بنادے گا اور اس کے بعد ان کی معافی کا سبب اپنے نبیوں اور خاص کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس درخواست کو بنادے گا کہ ان کا حساب کتاب بھی کرہی دیا جائے ۔‘‘
’’مگر حشر کی اتنی تکلیف اٹھانا اور پھر نجات پانا تو کوئی اچھا طریقہ نہیں ہوا۔‘‘، میں نے تأسف بھرے لہجے میں پوچھا تو صالح نے جواب میں کہا:
’’اچھا طریقہ بتانے ہی تو انبیاے کرام آئے تھے کہ ایمان لاؤ، عمل صالح کرو اور کوئی غلطی ہوجائے تو معافی مانگ لو۔ نجات کا سب سے سادہ اور آسان نسخہ یہی تھا، مگر نبیوں کی بات کسی نے سنی ہی نہیں اور اس کا نتیجہ آج بھگت لیا۔‘‘
میں نے اس کی تائید کرتے ہوئے کہا:
’’تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔ یہ تو بڑ ی خرابی اور خواری کے بعد معافی ہوئی۔ میں تو لیلیٰ کی پریشانی نہیں دیکھ سکا تھا جو ابتدا ہی میں نجات پا گئی تو ان لوگوں کا کیا ہو گا جو آخر تک انتظار کرتے رہیں گے اور حشر کی سختیاں اور مصائب برداشت کرتے رہیں گے ۔‘‘
’’میرے بھائی تم نے لیلیٰ کو جن حالات میں دیکھا تھا وہ تو بہت اچھے تھے ۔ لیکن اب میدان حشر کا ماحول بہت بھیانک ہو چکا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جہنم کا دہانہ مکمل طور پر کھول دیا گیا ہے ۔ جس کے بعد صرف حشر کی گرمی ہی نہیں بلکہ جہنم کا نظارہ اور اس میں جانے کا امکان بھی لوگوں کو مارے ڈال رہا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا غضب مجرموں پر بھڑ ک رہا ہے ۔ لوگ اپنے سامنے حساب کتاب اور مجرموں کی رسوائی دیکھ رہے ہیں ۔ یہ سب اتنا ہولناک ہے کہ انسان کی برداشت سے باہر ہے ۔ سب سے بڑ ی بات یہ ہے کہ کسی کو نہیں معلوم کہ اس کے ساتھ کیا ہو گا۔ اس لیے اس وقت تم اہل محشر کے خوف اور ان کے ذہنی و جسمانی عذاب اور نفسیاتی اذیت کا اندازہ نہیں کرسکتے ۔‘‘
میں دل میں سوچنے لگا کہ کیا یہی وہ طریقہ تھا لوگ جس کے ذریعے سے نجات کی آس لگائے بیٹھے تھے ؟ کاش لوگ دنیا ہی میں سمجھ لیتے کہ نجات کا انحصار ایمان اور عمل صالح پر ہو گا۔ حضور نے ساری عمر اسی کی دعوت دی تھی۔ مگر لوگوں کی خوش فہمیوں کا کیا کیجیے ۔ حضور کی اصل دعوت کو انہوں نے پیچھے پھینک دیا اور اپنے گمانوں کی جھوٹی دنیا آباد کر لی۔ ان کا خیال تھا کہ وہ کچھ نہ بھی کریں شفاعت انہیں بخشوادے گی۔ مگر آج یہ بالکل واضح ہو چکا ہے کہ نجات ایمان اور عمل صالح پر ملے گی۔ ہر وہ بڑ ا گناہ جس کی توبہ نہیں کی، اس کی سزا آج حشر کی سختی اور جہنم کے بھیانک سائے تلے بھگتنا پڑ ے گی۔ اے کاش کہ لوگوں کو یہ بات آج سمجھ آنے کے بجائے دنیا ہی میں سمجھ آ جاتی تو ان کی ساری زندگی توبہ کرتے گزرتی۔
میں اپنی سوچوں میں گم تھا کہ صالح نے مجھے دیکھ کر کہا:
’’میرا خیال ہے کہ حوض کوثر پر جانے سے قبل حضرت عیسیٰ کی گواہی کا منظر دیکھ لیتے ہیں ۔ پھر رسول اللہ کے پاس چلیں گے ۔‘‘
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہم ایک دفعہ پھر میدان حشر میں آ چکے تھے ۔ مگر اس دفعہ ہم عرش الٰہی کے دائیں طرف کھڑ ے تھے ۔ عرش الٰہی کی تجلیات سے زمین و آسمان منور تھے ۔ کامیاب لوگوں کے لیے یہ تجلیات مسرت و شادمانی کا پیام تھیں جبکہ مجرموں پر یہ قہر بن کر نازل ہورہی تھیں ۔ عرش الٰہی کے چاروں طرف فرشتے ہاتھ باندھے حلقہ در حلقہ کھڑ ے تھے ۔ سب سے پہلے حاملین عرش تھے اور ان کے بعد درجہ بدرجہ دیگر فرشتے ۔ ان فرشتوں کی زبان پر حمد، تسبیح اور تکبیر و ثنا کے کلمات تھے ۔ حضرت عیسیٰ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہو چکے تھے ۔ جبکہ اول سے آخر تک سارے عیسائیوں کو میدان حشر میں موجود فرشتوں نے دھکیل کر عرش کے قریب کر دیا تھا۔ ارشاد ہوا:
’’عیسی ابن مریم قریب آؤ۔‘‘
فرشتوں نے سیدنا عیسیٰ کے لیے راستہ چھوڑ دیا اور وہ چلتے ہوئے عرش الٰہی کے بالکل قریب آکھڑ ے ہوئے ۔ ان کے ہاتھ بندھے ہوئے اور گردن جھکی ہوئی تھی۔ ارشاد ہوا:
’’عیسیٰ تم نے اپنی قوم کو میرا پیغام پہنچادیا تھا؟ تمھیں کیا جواب ملا؟‘‘
’’مالک مجھے کچھ علم نہیں ۔ غیب کا علم تو صرف تجھے ہے ۔‘‘
ان کی یہ بات اس حقیقت کا بیان تھی کہ حضرت عیسیٰ معلوم نہ تھا کہ ان کی امت نے ان کے بعد دنیا میں کیا کیا تھا۔ حضرت عیسیٰ کے اس جواب پر میدان حشر میں ایک خاموشی چھا گئی۔ کچھ لمحے بعد آسمان پر ایک دھماکہ ہوا۔ تمام نظریں آسمان کی طرف بلند ہوگئیں ۔ آسمان پر ایک فلم سی چلنے لگی۔ اس فلم میں مسیحی حضرت عیسی اور حضرت مریم کے بتوں کے سامنے سر ٹیک رہے تھے ۔ بازاروں میں صلیب پکڑ ے لوگ جلوس نکال رہے تھے ، گرجوں میں مسیح و مریم کی پرستش ہوہی تھی، ان کی تعریف کے نغمے گائے جا رہے تھے ۔
میں یہ مناظر دیکھتا ہوا یہ سوچ رہا تھا کہ عیسائیوں نے انسانی تاریخ کے سب سے بڑ ے شرک کو جنم دیا تھا۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تو اپنے پیغمبر حضرت عیسیٰ کو توحید ہی کی دعوت دے کر بھیجا تھا۔ ان کے زمانے میں یہودیوں نے شریعت موسوی میں طرح طرح کی فقہی موشگافیاں کر کے اس پر عمل کو بہت مشکل بنادیا تھا۔ ان لوگوں نے خدا اور بندے کے ایمانی اور محبت آمیز تعلق کو ایک بے روح قانونی تعلق میں بدل دیا تھا۔ چنانچہ وہ چند ظاہری اور معمولی اعمال پر تو خوب زور دیتے مگر ایمان و اخلاق کے تمام اخلاقی احکام کے معاملے میں ان پر غفلت طاری تھی۔ ایسے میں ان کی طرف سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی بعثت ہوئی۔ آپ نے بڑ ی شدت سے بنی اسرائیل کی ظاہر پرستی اور اخلاقی دیوالیے پن پر تنقید کی۔ اپنے زمانے کے مذہبی لوگوں پر تنقید کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا تھا:
’’اے ریاکار فقیہوں اور فریسیوں تم پر افسوس! کہ تم بیواؤں کے گھروں کو دبا بیٹھتے ہو اور دکھاوے کے لیے نمازوں کو طول دیتے ہو، تمہیں زیادہ سزا ہو گی۔ ۔ ۔ اے ریاکار فقیہوں اور فریسیوں تم پر افسوس! کہ پودینہ اور سونف اور زیرہ پر تو دہ یکی (یعنی عشر: پیداوار کی زکوٰۃ) دیتے ہوپر تم نے شریعت کی زیادہ بھاری باتوں یعنی انصاف اور رحم اور ایمان کو چھوڑ دیا ہے ۔ لازم تھا کہ یہ بھی کرتے وہ بھی نہ چھوڑ تے ۔ اے اندھے راہ بتانے والوں جو مچھر کو تو چھانتے ہوا ور اونٹ کو نگل جاتے ہو۔ اے ریاکار فقیہوں اور فریسیوں تم پر افسوس! کہ پیالے اور رکابی کو اوپر سے صاف کرتے ہو مگر وہ اندر لُوٹ اور ناپرہیزگاری سے بھرے ہیں ۔ اے اندھے فریسی پہلے پیالی اور رکابی کو اندر سے صاف کر تاکہ اوپر سے بھی صاف ہوجائیں ۔ اے ریاکار فقیہوں اور فریسیوں تم پر افسوس! کہ تم سفیدی پھری ہوئی قبروں کی مانند ہو جو اوپر سے تو خوبصورت دکھائی دیتی ہیں مگر اندر مردوں کی ہڈیوں اور ہر طرح کی نجاست سے بھری ہیں ۔ اسی طرح تم بھی ظاہر میں تو لوگوں کو راستباز دکھائی دیتے ہو مگر باطن میں بے دینی اور ریاکاری سے بھرے ہو۔‘‘
آپ کی اس تنقید پر یہودی آپ کے سخت دشمن ہوگئے اور یہاں تک کہ وہ آپ کے قتل پر آمادہ ہوگئے ۔ مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ان کے شر سے بچاکر آسمانوں پر اٹھالیا۔ بدقسمتی سے مسیح کے بعد سینٹ پال نامی آپ کے ایک کٹر یہودی دشمن نے آپ کی پیروی کا لبادہ پہن کر آپ کی پوری تعلیمات کو مسخ کر کے رکھ دیا۔ ایک طرف اس نے اعلان کیا کہ شریعت کی پابندی صرف یہودیوں کے لیے ضروری ہے ، دیگر لوگوں کے لیے نہیں ۔ دوسری طرف اس نے حضرت عیسیٰ اور ان کی والدہ کو الوہیت کے مقام پر فائز کر دیا۔ چنانچہ آہستہ آہستہ عیسائیت دنیا کا سب سے بڑ ا مشرکانہ مذہب بن گیا۔ عیسائی مسیح کو خدا کا بیٹا سمجھتے ، مشکل کشا سمجھ کر ہر مصیبت میں ان کا نام لیتے ۔ مگر یہ ایک جھوٹ تھا جس کا جھوٹ ہونا آج بالکل کھل گیا ہے ۔
میں یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ میدان حشر میں عیسائیوں کے رونے کی صدائیں بلند ہونے لگیں ۔ عیسائیوں کو اپنے کرتوت صاف نظر آ گئے تھے اور ان کا بھیانک انجام جہنم کی شکل میں منہ کھولے ان کے سامنے کھڑ ا تھا۔ یکایک بہت سے مسیحی چلانے لگے :
’’خداوند ہم نے مسیح کی تعلیمات پر عمل کیا تھا۔ تو نے اپنے مسیح کو ہماری طرف بھیجا۔ اس نے ہمیں بتایا کہ وہ تیرا بیٹا ہے جسے تو نے ہماری نجات کے لیے بھیجا ہے ۔‘‘
ایک تیز ڈانٹ فضا میں بلند ہوئی اور سب لوگ ٹھٹک کر خاموش ہوگئے ۔ مسیح سے پوچھا گیا:
’’عیسیٰ! کیا تم نے ان لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کو چھوڑ کر مجھے اور میری ماں کو اپنا معبود بنالو۔‘‘
گرچہ یہ ایک سادہ سا سوال تھا، مگر یہ سنتے ہی حضرت عیسیٰ پر لرزہ طاری ہو گیا۔ ان کے پاؤں کے لیے ان کا بوجھ اٹھانا مشکل ہو گیا۔ یہ دیکھ کر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’عیسیٰ تم میرے محبوب پیغمبر ہو۔ میرے پیغمبر میرے حضور ڈرا نہیں کرتے ۔ اطمینان سے میری بات کا جواب دو۔‘‘
اس جملے کے ساتھ ہی دو فرشتے حضرت عیسیٰ کے قریب آئے اور انہیں سہارا دے کر ایک نشست پر بٹھادیا۔
یہ منظر انتہائی عبرتناک تھا۔ سیدنا عیسیٰ خدا کے ایک انتہائی عزیز اور محبوب پیغمبر تھے ، مگر بدقسمتی سے وہی انسانی تاریخ کی ایسی ہستی بن گئے جنھیں سب سے بڑ ے پیمانے پر اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں لاکھڑ ا کیا گیا۔ ان سے دعا و مناجات کی جاتی، ان کی حمد و تعریف کی جاتی، ان کی عبادت و پرستش کی جاتی۔ مگر آج اللہ تعالیٰ کے ایک سوال پر ان کی جو حالت ہوگئی تھی وہ ان کو خدا سمجھنے والوں کو خون کے آنسو رلانے کے لیے بہت تھی۔ آج سب نے جان لیا تھا کہ خدا کے مقابلے میں کسی کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔
میں نے دل میں سوچا کہ ایک ایک کر کے خدا کے ایسے ہی دیگر صالح بندے آئیں گے جنھیں دنیا میں لوگ ایسے ناموں اور صفات سے پکارتے تھے جو صرف خدا کو زیب دیتی ہیں ، مگر آج ان میں سے ہر شخص انکار کر دے گا کہ ہم نے لوگوں سے اس نوعیت کی کوئی بات کہی تھی۔ ہر ایک کا حال یہ ہو گا کہ مسیح کی طرح کسی میں بھی خدا کے سامنے کھڑ ے ہونے کی طاقت نہیں ہو گی۔ کاش ان کے نام پر دھوکہ کھانے والے لوگ خدا کی یہ عظمت پہلے ہی دریافت کر لیتے ۔ کاش لوگ انسانوں کو خد اکے مقابلے میں نہ لے کر آتے ۔ اس دوران میں حضرت عیسیٰ پر سے خشیت الٰہی کا غلبہ کچھ کم ہوا تو وہ کرسی سے کھڑ ے ہوئے اور عرض کرنے لگے :
’’آقا تو پاک ہے! میرے لیے کیسے روا تھا کہ میں وہ بات کہوں جس کا مجھے کوئی حق نہیں ۔ اگر میں نے یہ بات کہی ہوتی تو تو اسے جانتا ہوتا۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے تو ان سے وہی بات کہی جس کا تو نے مجھے حکم دیا کہ اللہ کی بندگی کرو جو میرا بھی رب ہے اور تمھارا رب بھی۔ اور میں ان پر گواہ رہا جب تک ان میں موجود رہا۔ پھر جب تو نے مجھے اٹھالیا تو تو ہی ان پر نگران رہا۔ اور تو تو ہر چیز پر گواہ ہے ۔ اگر تو ان کو سزا دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انہیں بخش دے تو تو غالب اور حکمت والا ہے ۔‘‘
یہ سن کر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’آج صرف سچائی اپنے اختیار کرنے والے سچے لوگوں کو فائدہ دے سکے گی۔‘‘
پھر حضرت عیسیٰ کو رخصت کر دیا گیا اور فرشتوں کو حکم ہوا:
’’عیسیٰ کی امت میں سے جس کسی کا علم اور عمل عیسیٰ کے پیغام کے مطابق ہے ، اسے ہمارے حضور پیش کیا جائے ۔‘‘
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

جا ری ہے
مصنف: ابو یحیی

جب زندگی شروع ہو گی دراصل ایک ناول ہے جو آٹھ ابواب پر مشتمل ہے۔ یہ ناوال ابویحیی صاحب کا تحریر کردہ ہے۔ جس میں وہ قرآن و سنت کی روشنی میں محشر کے دن کا احوال بیان کر رہے ہیں۔ واقعات کس انداز میں رونما ہوں گے۔ حساب کتاب کا عمل کس انداز سے ہو گا اور نیک و کار اور گناہ گاروں کے ساتھ کس قسم کا معاملہ کیا جائے گا۔ ناول کا تعارف ابویحییٰ کی زبانی جاننے کے لیے سب سے پہلے باب کا مطالعہ کیجیے جو کہ یاسر عمران مرزا کے بلاگ پر موجود ہے۔ نیچے تمام حصوں کے روابط دیے گئے ہیں۔ والسلام

جب زندگی شروع ہو گی کے تمام ابواب

جب زندگی شروع ہوگی پہلا باب: روزِقیامت
جب زندگی شروع ہوگی دوسرا باب:عرش کے سائے میں
جب زندگی شروع ہوگی تیسرا باب: میدان حشر
جب زندگی شروع ہوگی چوتھا باب: ناعمہ
جب زندگی شروع ہوگی پانچواں باب : دو سہیلیاں
جب زندگی شروع ہوگی چھٹا باب: آج بادشاہی کس کی ہے ؟
جب زندگی شروع ہوگی ساتواں باب: حضرت عیسیٰ کی گواہی

About Yasir Imran

Yasir Imran is a Pakistani living in Saudi Arabia. He writes because he want to express his thoughts. It is not necessary you agree what he says, You may express your thoughts in your comments. Once reviewed and approved your comments will appear in the discussion.
This entry was posted in Urdu and tagged , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , , . Bookmark the permalink.

12 Responses to جب زندگی شروع ہوگی ساتواں باب: حضرت عیسیٰ کی گواہی

  1. Pingback: جب زندگی شروع ہوگی پہلا باب: روزِقیامت | Yasir Imran Mirza

  2. Pingback: جب زندگی شروع ہوگی دوسرا باب:عرش کے سائے میں | Yasir Imran Mirza

  3. Pingback: جب زندگی شروع ہوگی تیسرا باب: میدان حشر | Yasir Imran Mirza

  4. Pingback: جب زندگی شروع ہوگی چھٹا باب: آج بادشاہی کس کی ہے ؟ | Yasir Imran Mirza

  5. Pingback: جب زندگی شروع ہوگی پانچواں باب : دو سہیلیاں | Yasir Imran Mirza

  6. Pingback: جب زندگی شروع ہوگی چوتھا باب: ناعمہ | Yasir Imran Mirza

  7. ابو یحیی کی تحاریر ماہنامہ گلوبل سائنس میں پڑھ چکا ہوں. زیر نظر تحریر بھی مضوع کے اعتبار سے منفرد اسلوب کی حامل ہے.
    آپ کا شکریہ کہ آپ نے نہایت محبت سے ہمارے لئے ان اوراق کو محفوظ بنایا. جزاک اللہ.

  8. Pingback: جب زندگی شروع ہوگی آٹھواں باب: حوض کوثر پر | Yasir Imran Mirza

  9. Pingback: جب زندگی شروع ہوگی نواں باب: قوم نوح اور دین بدلنے والے | Yasir Imran Mirza

  10. Pingback: جب زندگی شروع ہوگی دسواں باب: حساب کتاب اور اہل جہنم | Yasir Imran Mirza

  11. Pingback: جب زندگی شروع ہوگی نواں باب: قوم نوح اور دین بدلنے والے | Yasir Imran Mirza

  12. Pingback: جب زندگی شروع ہوگی آٹھواں باب: حوض کوثر پر | Yasir Imran Mirza

Leave a Reply

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

You are commenting using your WordPress.com account. Log Out /  Change )

Twitter picture

You are commenting using your Twitter account. Log Out /  Change )

Facebook photo

You are commenting using your Facebook account. Log Out /  Change )

Connecting to %s