جی ابھی نہیں، کل اسی وقت شاید، میں سعودی عرب کی تپتی ریگستانی ہواؤں کو چھوڑ کر اپنے دیس کی ٹھنڈی ہواؤں کی جانب ایک اڑن کھٹولے پر بیٹھا ہوا جا رہا ہوں گا۔ لیکن لگتا ہے اپنے دیس کی ٹھنڈی ہوائیں اب بارود کی بو سے آلودہ ہو چکی ہیں اور وہی پاکستان کی دھرتی جو پردیسیوں کو اپنی آغوش میں سمیٹ لیتی تھی اب ان کی زندگی کے لیے خطرہ بن رہی ہے۔ سیاستدانوں کے محلوں، گاڑیوں اور ان کی جائیدادوں کے سوا کچھ محفوظ نہیں۔ عوام کا سڑک پر نکلنا مشکل ہو رہا ہے۔ ڈالر ہوا میںپھینکے جا رہے ہیں اور لوٹنے والے اپنے ہی بھائی بہنوں اور بچوں کی زندگیوں عوض ڈالر لوٹ رہے ہیں، یہ نہیں پتہ کہ وہ جس حیات کے لیے سرمایہ جمع کر رہے ہیں اس کی ایک ساعت کی ضمانت بھی نہیں۔ کب باری تعالی اس سانس کی ڈوری کو کھینچ لیں اور ڈالر دھرے کے دھرے رہ جائیں۔ بڑے بڑے محل، یورپ کے کاروبار، سوئس بنکوں کے اکاؤنٹ، اسلام آباد کے پلاٹ سب وہیں کے وہیں رہ جائیں۔ لیکن خوف خدا تو جیسے ان افراد کے دلوں سے عرصہ ہوا بھاگ چکا ہے بس خوف امریکہ باقی ہے۔
میرے جیسے بہت سے کڑھتے رہیں گے اور وہ جیسے تانیہ رحمان کہتی ہیں صفحے کالے کر رہے ہیں بس وہیسی ہی بات ہے کہ ہمارے یہ سب الفاظ ، طعنے اور نصیحتیں بے اثر ہو گئی ہیں۔ ہم بھی کیسے بھولے ہیں کہ ان افراد کوشرم دلانا چاہ رہے ہیں جنہوں نے پہلے ہی اپنی غیرت بیچ دی۔ غور کریں تو شاید ہم سبھی پاکستانی قصوروار ہیں اس لیے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو سدھرنے کی ہمت دے اور سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق دے۔
چونکہ میں محدود عرصہ کے لیے چھٹیوں پر جا رہا ہوں اس لیے بلاگ پر زیادہ تر غیر حاضر ہی رہوں گا۔ سب پڑھنے والوں کا بہت بہت شکریہ، دعاؤں میں یاد رکھیے گا۔ والسلام
یاسر عمران مرزا
خدا آپ کا مملکت پاکستان کے لیے امن کا پیغام لائے
سفر 🙂
Nicely written 🙂