یہ سوال میرے ذہن میں بہت عرصے سے کلبلا رہا ہے ، خاص طور پر جب سے میں سعودی عرب میں قیام پذیر ہوں۔ یہاں پر کثیر تعداد میں غیر ملکی آباد ہیں ،جن میں بنگالی، انڈین، پاکستانی مصری وغیرہ شامل ہیں۔
میں نے یہاں دو سے تین اداروں میں کام کیا، اور بیشتر بنگالی افراد سے واسطہ پڑا، یہ لوگ اردو زبان نہیں جانتے، بنگالی ان کی مادری زبان ہے بہر حال ان میں سے کچھ لوگ ٹوٹی پھوٹی اردو اور ہندی بولتے ہیں۔ کئی سال قبل مشرقی پاکستان
دشمنوں کی سازشوں اور اپنے سیاستدانوں کی پیدا کی گئ نفرت کی وجہ سے بنگلہ دیش بن گیا۔ اس سے قبل تو ایک ہی پاکستان تھا، جو قائد اعظم محمد علی جناح نے بنایا، انگریزی قوم سے تاریخ کی عظیم الشان قانونی جنگ کر کے پاکستان حاصل کیا۔ بلاشبہ قائد اعظم محمد علی جناح بابائے پاکستان ہیں، سچے پاکستانی ان کے لیے بہت احترام اور عزت رکھتے ہیں، لیکن کیا محمد علی جناح کےلیے یہ عزت بنگالی قوم کے افراد بھی رکھتے ہیں، کیا ہوا اگر انہوں نے اپنا الگ ملک بنا لیا مگر انگریز سے ان کو آزادی لے کے دینے والی ہستی تو محمد علی جناح ہی ہیں نا۔
یہ سوال جب میں نے بنگالی افراد سے کیا تو مجھے حد درجہ مایوسی ہوئی، کیونکہ زیادہ تر لوگ تو محمد علی جناح کے نام سے ہی واقف نہیں اور اگر کوئی واقف ہے تو وہ جواب دیتا ہے، “ہاں گاندھی کے ساتھ ایک اور بابا جی بھی ہوتے تھے، جناح”
اس سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ جن لوگوں نے پاکستان کو توڑ کے بنگلہ دیش کی بنیاد رکھی انہوں نے پاکستانی نظریات کو بھی ختم کر دیا، سکول کی کتابوں سے پاکستان اور محمد علی جناح کا نام بھی نکال دیا، ظاہر ہے پھر نئی نسل محمد علی جناح کے نام سے کیسے واقف ہو سکتی ہے، اس نام کی جگہ مجیب الرحمن کے نام نے لے لی اور اسی کو بابائے قوم تصور کیا جاتا ہے، حالانکہ ملک کو غیر مسلم طاقتوں سے نجات دلانے والی ہستی تو محمد علی جناح ہی تھی، لیکن یہ نام ماضی میں گم ہو چکا ہے، سقوط ڈھاکہ کا واقعہ جہاں بہت سے افراد کے لیے اذیت کا باعث ہے وہاں میرے جیسے لوگوں کے لیے یہ بھی بہت افسوس کی بات ہے کہ اصلی بابائے قوم کی جگہ بھی نقلی بابائے قوم نے لے لی۔
مانا کہ پاکستان کے حالات آجکل بہت بگڑ چکے ہیں، کچھ لوگ کہیں گے کہ موجودہ پاکستان والے جو محمد علی جناح کے نام کو جانتے ہیں انہوں نے کونسا قائد اعظم کے فرمودات پر عمل کیا ہے تو بنگالی اس ہستی کو بھول بھی گئے تو کیا، مگر میں کہتا ہوں پاکستانی قوم آج بھی زندہ ہے، ملک پر کوئی بھی آفت یا مصیبت پڑتی ہے تو یہ قوم ایک جان ہو جاتی ہے، پنجابی سندھی بلوچی پختون کی یہ کدورتیں سیاستدانوں کی پھیلائی گئی ہیں۔ بابائے قوم آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہے، اور مجھے یقین ہے کہ اگر پاکستانی قوم اپنے دشمنوں کی سازشیں پہچاننے میں کامیاب ہو جائے تو یہ ایک دن بہت بڑی قوم بنے گی۔
good! kia piari baat ki hay Qom to ak hay! ya tu Siyasatdan he hean jo un ko maktalef daroo may baat rahy hean.
send ur articals news events at http://www.umeed-e-jahan.com
جی بھای، اللہ پاکستان کی حفاظت کرے اور ہمیں پاکستان میں سہی نظام قاہم کرنے کی توفیق۔
عبداللہ صاحب
آپ کی دعا پر آمین کہتا ہوں، اور آپ کو یوم آزادی مبارک
بی بی سی سے اقتباس
بنگلہ دیش: بابائے قوم کا تنازعہ ختم
بنگلہ دیش کے ہائی کورٹ نے فیصلہ سنایا ہے کہ سنہ انیس سو اکہتر میں پاکستان سے آزادی کا اعلان بنگلہ دیش کے پہلے صدر شیخ مجیب الرحمن نے کیا تھا۔
اس فیصلے کے بعد بنگلہ دیش میں برسوں سے جاری اس تنازعے کا خاتمہ ہوگیا ہے کہ قوم کا اصل بانی کون ہے؟
شیخ مجیب الرحمن بنگلہ دیش کی موجودہ وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے والد تھے۔ جبکہ حزب مخالف کی پارٹی بنگلہ دیش نیشنل پارٹی ہمیشہ یہ دعویٰ کرتی رہی ہے کہ آزادی کا اعلان پارٹی کی رہنما خالدہ ضیاء کے مرحوم شوہر نے کیا تھا۔
لیکن عدالت کے اس فیصلے کے بعد اب تک اپوزیشن پارٹی کی طرف سے اس پر کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے۔
بنگلہ دیش کی دو بڑی جماعتیں عوامی لیگ اور بنگلہ دیش نیشنل پارٹی کے مابین برسوں تک اس بات پر اختلاف رہا کہ اصل معنوں میں بابائے قوم کون ہے۔
بنگلہ دیشی عوام دو دھڑوں میں بٹے ہوئے ہیں جن پر دو ایسی جماعتیں غالب ہیں جن کے مؤقف تاریخ کے حوالے سے بالکل مختلف ہیں۔ جبکہ ان میں سے ہر ایک کا یہ خیال ہے حکومت کرنا صرف ان کا حق ہے۔
ان پارٹیوں میں سے جو بھی اقتدار میں آتا ہے تاریخ کی کتابیں اس کے مؤقف کے مطابق دوبارہ لکھی جاتی ہیں۔
تاہم اب بنگلہ دیش میں فیصلہ کن انتخابات کے چھ ماہ بعد، جس کے نتیجے میں شیخ حسینہ واجد برسر اقتدار آئیں، بنگلہ دیش کی ایک عدالت نے ان کے والد کے حق میں یہ کہتے ہوئے فیصلہ سنایا ہے کہ شیخ مجیب الرحمن نے درحقیقت جنگ کی ابتداء میں ہی آزادی حاصل کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس حوالے سے باقی تمام دعوے جھوٹ پر مبنی ہیں۔
شیخ مجیب الرحمن بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد جنوری سنہ دو ہزار بہتر میں پہلے صدر بنے جبکہ سنہ انیس سو پچھتر میں ان کو قتل کر دیا گیا تھا۔
December ki Akhri Shab
Aasman Kitna Roya Tha ..
K Dill Bi Larz Utha Tha
Hont Kap-kappa Rahey They
Tera Naam Bi Dill Mien Machal Gya Tha
Tabb Dill Ne Tujhey Pukara Tha
Bohat Saddayoon Par Bi
Jab Tu Nah Aaya
To Aankhien Motee Bikherney Ko Hee Thien
k…
Hum Ne Ankhien Mond li
Our Qaid Kar Liya
Teri Yaadoo ko in Ankhoo Mien !!!